قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابُ شَهَادَةِ المُخْتَبِي)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَأَجَازَهُ عَمْرُو بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ: «وَكَذَلِكَ يُفْعَلُ بِالكَاذِبِ الفَاجِرِ» وَقَالَ الشَّعْبِيُّ، وَابْنُ سِيرِينَ، وَعَطَاءٌ، وَقَتَادَةُ: «السَّمْعُ شَهَادَةٌ» وَكَانَ الحَسَنُ يَقُولُ: «لَمْ يُشْهِدُونِي عَلَى شَيْءٍ، وَإِنِّي سَمِعْتُ كَذَا وَكَذَا»‏.‏

2638. حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ سَالِمٌ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ الأَنْصَارِيُّ يَؤُمَّانِ النَّخْلَ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، حَتَّى إِذَا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، طَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ، وَابْنُ صَيَّادٍ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْرَمَةٌ - أَوْ زَمْزَمَةٌ - فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ: أَيْ صَافِ، هَذَا مُحَمَّدٌ، فَتَنَاهَى ابْنُ صَيَّادٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور عمرو بن حریث ؓ نے اس کو جائز کہا ہے اور فرمایا کہ جھوٹے بے ایمان کے ساتھ ایسی صورت اختیار کی جاسکتی ہے ۔ شعبی ، ابن سیرین ، عطاء اور قتادہ نے کہا کہ جو کوئی کسی سے کوئی بات سنے تو اس پر گواہی دے سکتا ہے گو وہ اس کو گواہ نہ بنائے اور حسن بصرینے کہا کہ اسے اس طرح کہنا چاہئے کہ اگرچہ ان لوگوں نے مجھے گواہ نہیں بنایا لیکن میں نے اس طرح سے سنا ہے ۔ تشریح : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓا پر تہمت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک مشہور ترین حادثہ ہے۔ جس میں آنحضرت ﷺ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ اور بہت سے اکابر صحابہ کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر اس بارے میں سورۃ نور نازل ہوئی اور اللہ پاک نے حضرت عائشہ ؓ کی پاک دامنی ظاہر کرنے کے سلسلے میں کئی شاندار بیانات دئیے۔ امام بخاری  نے مطلب باب اس سے نکالا کہ حضرت اسامہ نے حضرت عائشہ ؓ کی تعدیل ان لفظوں میں بیان کی جو مقصد باب ہیں۔ اس الزام کا بانی عبداللہ بن ابی منافق مردود تھا۔ جو اسلام سے دل میں سخت کینہ رکھتا تھا۔ الزام ایک نہایت ہی پاک دامن صحابی صفوان بن معطل کے ساتھ لگایا تھا جو نہایت نیک صالح اور مرد عفیف تھا۔ یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔ حدیث افک کی اور تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔

2638.

حضرت عبد اللہ بن عمر  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابی بن کعب انصاری  ؓ اس نخلستان کا قصد کر کے چلے جس میں ابن صیاد تھا۔ رسول اللہ ﷺ جب باغ میں داخل ہوئے تو کھجوروں کی آڑ میں چھپ چھپ کر چلنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ اس کی کچھ باتیں اس کے دیکھنے سے پہلے سننا چاہتے تھے۔ ابن صیاد اپنے بستر پر چادر میں منہ لپیٹے لیٹا ہوا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا۔ چنانچہ نبی ﷺ درختوں کی آڑ میں آرہے تھے کہ ابن صیاد کی ماں نے آپ کو دیکھ لیا۔ اس نے (فوراً) ابن صیاد سے کہا: اے صاف! یہ محمد (ﷺ آرہے) ہیں۔ یہ سن کر ابن صیاد گنگناہٹ سے رک گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ اسے (اس حال پر) چھوڑ دیتی تو معاملہ واضح ہو جاتا۔‘‘