تشریح:
(1) جس نے چھپ کر کوئی واقعہ دیکھا یا سنا تو کیا اس کی گواہی معتبر ہو گی یا نہیں؟ بعض حضرات کا خیال ہے کہ جو شخص چھپ کر کسی کے حالات معلوم کرتا ہے، اس کی عدالت مجروح ہے، لہذا اس کی شہادت قبول نہیں ہو گی لیکن بعض اوقات ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ حالات کا صحیح علم ہو سکے، چنانچہ ابن صیاد چھپ کر نافرمانی اور فریب کرتا تھا، ایسے لوگوں کا کسی بھی حیلے سے کلام سننا جائز ہے تاکہ پوری وضاحت کے بعد کوئی حکم لگایا جائے، چنانچہ رسول اللہ ﷺنے چھپ کر ابن صیاد کے حالات معلوم کرنے کا پروگرام بنایا اور اس کی گفتگو چھپ کر سنی، نیز فرمایا: ’’اگر اس کی ماں اسے خبردار نہ کرتی تو اس کے متعلق کئی امور کا انکشاف ہوتا۔‘‘ (2) اگر چھپ کر بات سننے والے کی شہادت قبول نہ کی جائے تو سراغ رسانی کا محکمہ اور اس کی کارکردگی فضول ہو گی۔ اب تو دنیا اتنی ترقی کر گئی ہے کہ کسی مقام پر چھوٹا سا آلہ لگایا جاتا ہے جس میں اہل مجلس کی تمام گفتگو ریکارڈ ہو جاتی ہے، ایسی شہادت قبول تو ہو گی، البتہ اس پر جرح کی جا سکتی ہے تاکہ کوئی فاسق و فاجر اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔ جہاں آوازوں کے اشتباہ کا اندیشہ ہو تو ایسی گواہی پر مکمل انحصار نہیں کیا جائے گا جس کی بنیاد صرف سماعت ہے۔ بہرحال ایسے معاملات میں جرح کا حق محفوظ رہنا چاہیے تاکہ حقیقت حال تک رسائی حاصل ہو سکے۔