تشریح:
(1) اس خاتون کا نام تمیمہ بنت وہب تھا جو پہلے حضرت رفاعہ بن سموال ؓ کے نکاح میں تھیں، انہوں نے قطعی طلاق دے کر اسے اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا۔ اس نے دوسرا نکاح حضرت عبدالرحمٰن بن زبیر ؓ سے کیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس کے نامرد ہونے کی شکایت بڑے واشگاف اور صاف الفاظ میں کی۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ کو قرائن سے پتہ چلا کہ یہ میری شکایت کرے گی تو وہ اپنے دو صاجزادوں کو ساتھ لائے جو پہلی بیوی کے بطن سے تھے اور کھلے الفاظ میں اس کے موقف کی تردید کی۔ (2) حضرت خالد بن سعید ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس کھڑے عورت کی ناشائستہ گفتگو سن رہے تھے۔ انہوں نے عورت کی محض آواز سن کر اس کا نوٹس لیا اور حضرت ابوبکر ؓ کو اپنے جذبات سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر کسی قسم کا انکار نہیں کیا، لہذا حضرت خالد ؓ چھپنے والے کی طرح ہوئے جنہوں نے محض آواز سن کو گواہی دی۔ (3) دراصل وہ عورت اپنے دوسرے شوہر پر نامردی کا الزام لگا کر اس سے چھٹکارا پا کر پہلے خاوند کے پاس جانا چاہتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے ارادے کو بھانپ لیا اور فرمایا: ’’ایسا نہیں ہو سکتا، تجھے اسی خاوند کے پاس رہنا ہو گا۔‘‘ اس نے بھی عورت کی شکایت کا دو ٹوک الفاظ میں دندان شکن جواب دیا، کوئی لگی لپٹی بات نہیں کی بلکہ واضح الفاظ میں عورت کے دعوے کی تردید کی۔ اس کی تفصیل ہم کتاب اللباس، حدیث: 5825 کے تحت بیان کریں گے۔