قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابُ شَهَادَةِ المُخْتَبِي)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَأَجَازَهُ عَمْرُو بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ: «وَكَذَلِكَ يُفْعَلُ بِالكَاذِبِ الفَاجِرِ» وَقَالَ الشَّعْبِيُّ، وَابْنُ سِيرِينَ، وَعَطَاءٌ، وَقَتَادَةُ: «السَّمْعُ شَهَادَةٌ» وَكَانَ الحَسَنُ يَقُولُ: «لَمْ يُشْهِدُونِي عَلَى شَيْءٍ، وَإِنِّي سَمِعْتُ كَذَا وَكَذَا»‏.‏

2639. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفاعَةَ القُرَظِيِّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ، فَطَلَّقَنِي، فَأَبَتَّ طَلاَقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ إِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَقَالَ: «أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لاَ، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ»، وَأَبُو بَكْرٍ جَالِسٌ عِنْدَهُ، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ العَاصِ بِالْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ أَلاَ تَسْمَعُ إِلَى هَذِهِ مَا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور عمرو بن حریث ؓ نے اس کو جائز کہا ہے اور فرمایا کہ جھوٹے بے ایمان کے ساتھ ایسی صورت اختیار کی جاسکتی ہے ۔ شعبی ، ابن سیرین ، عطاء اور قتادہ نے کہا کہ جو کوئی کسی سے کوئی بات سنے تو اس پر گواہی دے سکتا ہے گو وہ اس کو گواہ نہ بنائے اور حسن بصرینے کہا کہ اسے اس طرح کہنا چاہئے کہ اگرچہ ان لوگوں نے مجھے گواہ نہیں بنایا لیکن میں نے اس طرح سے سنا ہے ۔ تشریح : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓا پر تہمت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک مشہور ترین حادثہ ہے۔ جس میں آنحضرت ﷺ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ اور بہت سے اکابر صحابہ کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر اس بارے میں سورۃ نور نازل ہوئی اور اللہ پاک نے حضرت عائشہ ؓ کی پاک دامنی ظاہر کرنے کے سلسلے میں کئی شاندار بیانات دئیے۔ امام بخاری  نے مطلب باب اس سے نکالا کہ حضرت اسامہ نے حضرت عائشہ ؓ کی تعدیل ان لفظوں میں بیان کی جو مقصد باب ہیں۔ اس الزام کا بانی عبداللہ بن ابی منافق مردود تھا۔ جو اسلام سے دل میں سخت کینہ رکھتا تھا۔ الزام ایک نہایت ہی پاک دامن صحابی صفوان بن معطل کے ساتھ لگایا تھا جو نہایت نیک صالح اور مرد عفیف تھا۔ یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔ حدیث افک کی اور تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔

2639.

حضرت عائشہ  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت رفاعہ قرضی  ؓ کی بیوی نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی۔ میں حضرت رفاعہ  ؓ کے نکاح میں تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر بالکل فارغ کردیا ہے۔ اس کے بعد میں نے حضرت عبد الرحمٰن بن زبیر  ؓ سے نکاح کر لیا ہے۔ وہ تو یوں ہی ہے کیونکہ اس کے پاس تو کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے (میری جنسی خواہش پوری نہیں کر سکتا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تو رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہے؟یہ نہیں ہو سکتا حتی کہ تو اس کا مزہ چکھے اور وہ تیرامزہ چکھے۔‘‘ حضرت ابو بکر  ؓ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب کہ خالد بن سعید بن عاص  ؓ دروازے کے پاس اجازت کے منتظر تھے۔ انھوں نے کہا: ابو بکر  ؓ! آپ اس عورت کی خرافات سن رہے ہیں، جو نبی ﷺ کے سامنے زور زور سے کہہ رہی ہے؟