تشریح:
(1) مطلب یہ ہے کہ ہر آنے والی نسل دین سے درجہ بہ درجہ دور ہوتی چلی جائے گی، چنانچہ دور حاضر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دور اول سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس ظلم و ستم کے دور میں کوئی معقول شخص لوگوں کی بدکرداری کی وجہ سے کسی کو گواہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہو گا لیکن بدکردار لوگ اپنی حیثیت منوانے کے لیے دوسروں کے معاملات میں ازخود دخل دیں گے۔ ایسے لوگوں پر موٹاپا آ جائے گا کیونکہ دولت کی ریل پیل ہو گی اور چربی کے نیچے ان کا ایمان اور ضمیر دب جائے گا۔ (2) ان لوگوں سے گواہی اس لیے طلب نہیں کی جائے گی کہ وہ اسے صحیح طریقے پر ادا کرنے کے عادی نہیں ہوں گے۔ اس بنا پر ان کی گواہی ظلم کی گواہی ہو گی، نیز ان کا مقصد دولت اکٹھی کرنا ہو گا، خواہ وہ سچی گواہی سے حاصل ہو یا جھوٹی گواہی سے۔ جب سچی جھوٹی گواہی سے بے پروائی برتنے پر مذکورہ مذمت ہے تو جھوٹی گواہی تو انتہائی مذموم ہو گی۔ اگر کسی کی گواہی سے مظلوم کی مدد ہوتی ہو تو ایسی گواہی مطالبے کے بغیر دینا ضروری ہے۔ حدیث میں ایسی گواہی کی فضیلت آئی ہے۔ واضح رہے کہ طبعی موٹاپا قابل مذمت نہیں، البتہ حرام خوری کے نتیجے میں جو موٹاپا ظاہر ہو گا مذکورہ حدیث میں اس کی مذمت کی گئی ہے۔ واللہ أعلم