قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابٌ: إِذَا زَكَّى رَجُلٌ رَجُلًا كَفَاهُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ أَبُو جَمِيلَةَ، وَجَدْتُ مَنْبُوذًا فَلَمَّا رَآنِي عُمَرُ، قَالَ: «عَسَى الغُوَيْرُ أَبْؤُسًا» كَأَنَّهُ يَتَّهِمُنِي، قَالَ عَرِيفِي: إِنَّهُ رَجُلٌ صَالِحٌ، قَالَ: «كَذَاكَ اذْهَبْ وَعَلَيْنَا نَفَقَتُهُ»

2662. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَثْنَى رَجُلٌ عَلَى رَجُلٍ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «وَيْلَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ» مِرَارًا، ثُمَّ قَالَ: «مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَادِحًا أَخَاهُ لاَ مَحَالَةَ، فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلاَنًا، وَاللَّهُ حَسِيبُهُ، وَلاَ أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا أَحْسِبُهُ كَذَا وَكَذَا، إِنْ كَانَ يَعْلَمُ ذَلِكَ مِنْهُ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور ابو جمیلہ نے کہا کہ میں نے ایک لڑکا راستے میں پڑا ہوا پایا ۔ جب مجھے حضرت عمر ؓ نے دیکھا تو فرمایا ، ایسا نہ ہو یہ غار آفت کا غار ہو ، گویا انہوں نے مجھ پر برا گمان کیا ، لیکن میرے قبیلہ کے سردار نے کہا کہ یہ صالح آدمی ہیں ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ ایسی بات ہے تو پھر اس بچے کو لے جا ، اس کا نفقہ ہمارے ( بیت المال کے ) ذمے رہے گا ۔ تشریح : یعنی ایک شخص کا تزکیہ کافی ہے اور شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک کم سے کم دو شخص تزکیہ کے لیے ضروری ہیں۔ غار کی مثال عرب میں اس موقع پر کہی جاتی ہے جہاں ظاہر میں سلامتی کی امید ہو اور درپردہ اس میں ہلاکت ہو۔ ہوا یہ تھا کہ کچھ لوگ جان بچانے کو ایک غار میں جاکر چھپے، وہ غار ان پر گرپڑا تھا یا دشمن نے وہیں آکر ان کو آلیا۔ جب سے یہ مثل جاری ہوگئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سمجھ گئے کہ اس نے حرام کاری نہ کی ہو اور یہ لڑکا اس کا نطفہ ہو مگر ایک شخص کی گواہی پر آپ کا دل صاف ہوگیا اور آپ نے اس بچے کا بیت المال سے وظیفہ جاری کردیا۔ تعدیل کا مطلب یہ کہ کسی آدمی کی عمدہ عادات و خصائل اور اس کی صداقت اور سنجیدگی پر گواہی دینا، اصطلاح محدثین میں تعدیل کا یہی مطلب ہے کہ کسی راوی کی ثقاہت ثابت کرنا۔

2662.

حضرت ابوبکرہ  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے پاس کسی دوسرے شخص کی تعریف کی تو آپ نے کئی مرتبہ فرمایا: ’’تجھ پر افسوس ہے!تم نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔‘‘ پھر آپ نے تلقین فرمائی: ’’تم میں سے اگرکوئی اپنے بھائی کی ضرور تعریف کرنا چاہتا ہے تو اسے یوں کہنا چاہیے کہ اللہ ہی فلاں شخص کے متعلق صحیح علم رکھتا ہے۔ میں اس کے مقابلے میں کسی کو پاک نہیں ٹھہراتا۔ میں اسے ایسا ایسا گمان کرتا ہوں بشرط یہ کہ وہ اس کی اس خوبی سے واقف ہو۔‘‘