قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابُ القُرْعَةِ فِي المُشْكِلاَتِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ يُلْقُونَ أَقْلاَمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ} [آل عمران: 44] وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " اقْتَرَعُوا فَجَرَتْ الأَقْلاَمُ مَعَ الجِرْيَةِ، وَعَالَ قَلَمُ زَكَرِيَّاءَ الجِرْيَةَ، فَكَفَلَهَا زكَرِيَّاءُ وَقَوْلِهِ: {فَسَاهَمَ} [الصافات: 141]: «أَقْرَعَ»، {فَكَانَ مِنَ المُدْحَضِينَ} [الصافات: 141]: «مِنَ المَسْهُومِينَ» وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: " عَرَضَ النَّبِيُّ ﷺعَلَى قَوْمٍ اليَمِينَ فَأَسْرَعُوا، فَأَمَرَ أَنْ يُسْهِمَ بَيْنَهُمْ: أَيُّهُمْ يَحْلِفُ "

2688. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا مَعَهُ، وَكَانَ يَقْسِمُ لِكُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا، غَيْرَ أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَبْتَغِي بِذَلِكَ رِضَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” جب وہ اپنی قلمیں ڈالنے لگے ( قرعہ اندازی کے لیے تاکہ ) فیصلہ کرسکیں کہ مریم کی کفالت کون کرے “ ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ( آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا ) کہ جب سب لوگوں نے ( نہراردن میں ) اپنے اپنے قلم ڈالے ، تو تمام قلم پانی کے بہاو کے ساتھ بہہ گئے ، لیکن زکریا ؑ کا قلم اس بہاو میں اوپر آگیا ۔ اس لیے انہوں نے ہی مریم ؑ کی تربیت اپنے ذمہ لی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد فساہم کے معنی ہیں پس انہوں نے قرعہ ڈالا ۔ فکان من المدحضین ( میں مدحضین کے معنی ہیں ) من المسہومین ( یعنی قرعہ انہیں کے نام پر نکلا ) حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺنے ( کسی مقدمہ میں مدعیٰ علیہ ہونے کی بنا پر ) کچھ لوگوں سے قسم کھانے کے لیے فرمایا ، تو وہ سب ( ایک ساتھ ) آگے بڑھے ۔ اس لیے آپ ﷺنے ان میں قرعہ ڈالنے کے لیے حکم فرمایا تاکہ فیصلہ ہو کہ سب سے پہلے قسم کون آدمی کھائے ۔ جمہور علماءکے نزدیک قطع نزاع کے لیے قرعہ ڈالنا جائز اور مشروع ہے۔ ابن منذر نے حضرت امام ابوحنیفہ سے بھی اس کا جواز نقل کیا ہے۔ پس آیات اور حدیث سے قرعہ اندازی کا ثبوت ہوا۔ اب اگر کوئی قرعہ اندازی کا انکار کرے تو وہ خود غلطی میں مبتلا ہے۔

2688.

حضرت عائشہ  ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے، جس کے نام قرعہ نکلتا اسے اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے۔ آپ ﷺ نے اپنی ہر بیوی کے لیے ایک دن اور ایک رات کی باری مقرر کررکھی تھی لیکن حضرت سودہ بنت زمعہ  ؓ نے اپنی باری ام المومنین حضرت عائشہ  ؓ کو ہبہ کردی تھی، اس سے وہ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتی تھیں۔