قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصُّلْحِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي الإِصْلاَحِ بَيْنَ النَّاسِ إِذَا تَفَاسَدُوا،)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ، أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاَحٍ بَيْنَ النَّاسِ، وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللَّهِ، فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا}، وَخُرُوجِ الإِمَامِ إِلَى المَوَاضِعِ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ بِأَصْحَابِهِ "

2691. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَتَيْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، «فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ حِمَارًا، فَانْطَلَقَ المُسْلِمُونَ يَمْشُونَ مَعَهُ وَهِيَ أَرْضٌ سَبِخَةٌ»، فَلَمَّا أَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِلَيْكَ عَنِّي، وَاللَّهِ لَقَدْ آذَانِي نَتْنُ حِمَارِكَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ مِنْهُمْ: وَاللَّهِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْيَبُ رِيحًا مِنْكَ، فَغَضِبَ لِعَبْدِ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَشَتَمَهُ، فَغَضِبَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَصْحَابُهُ، فَكَانَ بَيْنَهُمَا ضَرْبٌ بِالْجَرِيدِ وَالأَيْدِي وَالنِّعَالِ، فَبَلَغَنَا أَنَّهَا أُنْزِلَتْ: {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ المُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا} [الحجرات: 9]

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ” ان کی اکثر کانا پھونسیوں میں خیر نہیں ، سو ان ( سرگوشیوں ) کے جو صدقہ یا اچھی بات کی طرف لوگوں کو ترغیب دلانے کے لیے ہوں یا لوگوں کے درمیان صلح کرائیں اور جو شخص یہ کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو جلد ی ہم اسے اجر عظیم دیں گے “ ۔ اور اس باب میں یہ بیان ہے کہ امام خود اپنے اصحاب کے ساتھ مختلف مقامات پر جاکر لوگوں میں صلح کرائے ۔ تشریح : حضرت امام بخاری نے صلح کی فضیلت میں اسی آیت پر اقتصار کیا، شاید ان کو کوئی حدیث صحیح اس باب میں اپنی شرط پر نہیں ملی۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ابوالدرداءسے مرفوعاً نکالا کہ میں تم کو وہ بات نہ بتلاؤں جو روزے اور نماز اور صدقے سے افضل ہے، وہ کیا ہے آپس میں ملاپ کردینا۔ آپس میں فساد نیکیوں کو مٹادیتا ہے۔ صلح کے مقابلے پر فساد جھگڑا جس کی قرآن مجید نے شدت سے برائی کی ہے اور بار بار بتلایا ہے کہ اللہ پاک جھگڑے فساد کو دوست نہیں رکھتا۔ وہ بہرحال صلح، امن، ملاپ کو دوست رکھتا ہے۔

2691.

حضرت انس  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ سے عرض کیا گیا: اگر آپ (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لے جائیں تو بہتر ہوگا، چنانچہ آ پ ﷺ گدھے پر سوار ہوکر اس کے پاس تشریف لے گئے۔ کچھ مسلمان بھی آپ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جس راستے سے آپ جارہے تھے وہ شور کلر والی زمین تھی۔ جب نبی کریم ﷺ اسکے پاس تشریف لے گئے تو عبداللہ بن ابی کہنے لگا: آپ مجھ سے دور رہیے، اللہ کی قسم! آپ کے گدھے کی بونے مجھے بہت اذیت پہنچائی ہے۔ ان میں سے ایک انصاری  ؓ نے کہا: اللہ کی قسم!رسول اللہ ﷺ کا گدھا تجھ سے خوشبودارہے۔ عبداللہ بن ابی منافق کی قوم کا ایک شخص اس پر غضبناک ہوا، یہاں تک کہ دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اس طرح ہر ایک کی طرف سے ان کے ساتھی مشتعل ہوگئے اور ان کے د رمیان چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مارکٹائی شروع ہوگئی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ درج ذیل آیت اس موقع پر نازل ہوئی: ’’اگر اہل ایمان کی دو جماعتیں جھگڑ پڑیں تو ان کے دمیان صلح کرادو۔‘‘