باب: اگر کسی نے کوئی دعویٰ کیا یا ( اپنی عورت پر ) زنا کا جرم لگایا اور گواہ لانے کے لیے مہلت چاہی تو مہلت دی جائے گی
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: If someone claims something or accuses somebody he should be given respite to get evidence)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2691.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت بلال بن امیہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کے پاس اپنی بیوی پر شریک بن سحماءکے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو آپ نے فرمایا: ’’تم پر گواہ پیش کرنا لازم ہے یا تیری پیٹھ پر حد قذف لگے گی۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! جب ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی پر کسی آدمی کو دیکھے تو کیا وہ گواہ تلاش کرنے جائے؟ آپ بدستور یہ فرماتے رہے: ’’ گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگیں گے۔‘‘ پھر آپ نے لعان سے متعلقہ حدیث بیان کی۔
تشریح:
(1) دعویٰ کرنے یا کسی پر زنا کی تہمت لگانے کے بعد اگر مدعی کے پاس فوری طور پر گواہ نہ ہوں تو اسے اس قدر مہلت دی جائے کہ وہ گواہ تلاش کر کے عدالت میں پیش کر سکے۔ اس سے فوراً گواہوں کی پیشی کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ (2) حدیث میں میاں بیوی سے متعلق ایک معاملے کا ذکر ہے جبکہ عنوان عام ہے لیکن یہ آیاتِ لعان نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس وقت شوہر اور اجنبی برابر تھے، پھر جب تہمت لگانے والے کے لیے یہ حکم ثابت ہوا تو ہر مدعی کے لیے بطریق اولیٰ ثابت ہوا، لیکن اجنبی ہو تو گواہ تلاش کرنے کی مہلت نہ دی جائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ دوڑا جائے، اس لیے بہتر ہے کہ اسے قید کر دیا جائے۔ امام بخاری ؒ نے تہمت لگانے والے کے لیے یہ مہلت بطریق نص ثابت کی ہے جبکہ دوسرے مدعیوں کے لیے بطریق قیاس یہ سہولت دی جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2577
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2671
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2671
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2671
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
جیسے حساب دیکھنے کے لیے مہلت دی جائے گی۔ اگر مہلت کے بعد ایک گواہ لایا اور دوسرا گواہ حاضر کرنے کے لیے اور مہلت چاہے تو پھر مہلت دی جائے گی۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت بلال بن امیہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کے پاس اپنی بیوی پر شریک بن سحماءکے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو آپ نے فرمایا: ’’تم پر گواہ پیش کرنا لازم ہے یا تیری پیٹھ پر حد قذف لگے گی۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! جب ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی پر کسی آدمی کو دیکھے تو کیا وہ گواہ تلاش کرنے جائے؟ آپ بدستور یہ فرماتے رہے: ’’ گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگیں گے۔‘‘ پھر آپ نے لعان سے متعلقہ حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) دعویٰ کرنے یا کسی پر زنا کی تہمت لگانے کے بعد اگر مدعی کے پاس فوری طور پر گواہ نہ ہوں تو اسے اس قدر مہلت دی جائے کہ وہ گواہ تلاش کر کے عدالت میں پیش کر سکے۔ اس سے فوراً گواہوں کی پیشی کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ (2) حدیث میں میاں بیوی سے متعلق ایک معاملے کا ذکر ہے جبکہ عنوان عام ہے لیکن یہ آیاتِ لعان نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس وقت شوہر اور اجنبی برابر تھے، پھر جب تہمت لگانے والے کے لیے یہ حکم ثابت ہوا تو ہر مدعی کے لیے بطریق اولیٰ ثابت ہوا، لیکن اجنبی ہو تو گواہ تلاش کرنے کی مہلت نہ دی جائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ دوڑا جائے، اس لیے بہتر ہے کہ اسے قید کر دیا جائے۔ امام بخاری ؒ نے تہمت لگانے والے کے لیے یہ مہلت بطریق نص ثابت کی ہے جبکہ دوسرے مدعیوں کے لیے بطریق قیاس یہ سہولت دی جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ ہلال بن امیہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ تہمت لگائی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر گواہ لا ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے کوئی شخص اگر اپنی عورت پر کسی دوسرے کو دیکھے گا تو گواہ ڈھونڈنے دوڑے گا؟ آنحضرت ﷺ برابر یہی فرماتے رہے کہ گواہ لا ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ پھر لعان کی حدیث کا ذکر کیا۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ دعویٰ کرنے یا کسی پر تہمت لگانے کے بعد اگر مدعی کے پاس فوری طور پر گواہ نہ ہوں تو اتنا اس امر کی مہلت دی جائے گی کہ وہ گواہ تلاش کرکے عدالت میں پیش کرے۔ ہلال بن امیہ کے سامنے اس کا اپنا چشم دید واقعہ تھا اور خود اپنی بیوی کا معاملہ تھا، دوسری طرف ارشاد رسول پاک ﷺ کہ شرعی قانون کے تحت چار گواہ پیش کرو، اس نے حیران و پریشان ہو کر یہ بات کہی جو حدیث میں مذکور ہے۔ آخر اللہ پاک نے اس مشکل کا حل لعان کی صورت میں خود ہی پیش فرمایا اور رسول کریم ﷺ نے لعان کے متعلق مفصل حدیث ارشاد فرمائی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جملہ احادیث نبوی کا اصل ماخذ قرآن کریم ہی ہے، اس حقیقت کے پیش نظر قرآن مجید متن ہے اور حدیث نبوی اس کی شرح ہے جو لوگ محض قرآن مجید پر عمل کرنے کا نعرہ بلند کرتے اور احادیث نبوی کی تکذیب کرتے ہیں یہ شیطانی فریب میں گرفتار اور گمراہی کے عمیق غار میں گرچکے ہیں۔ جن کا نتیجہ ہلاکت، تباہی، گمراہی اور دوزخ ہے۔ خدا کی مار ان لوگو ں پر جو قرآن مجید اور حدیث نبوی میں تضاد ثابت کریں۔ قرآن پر ایمان کا دعویٰ کریں اور حدیث کا انکار کریں ﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾(التوبة:30) انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو فتنہ انکار حدیث کے بانی وہ لوگ ہیں جنہوں نے احادیث نبوی کو ظنیات کے درجہ میں رکھ کر ان کی اہمیت کو گرادیا۔ حدیث نبوی جو بسند صحیح ثابت ہواس کو محض ظن کہہ دینا بہت بڑی جرات ہے۔ اللہ ان فقہاءپر رحم کرے جو اس تخفیف حدیث کے مرتکب ہوئے جنہوں نے فتنہ انکار حدیث کا دروازہ کھول دیا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو صراط مستقیم نصیب کرے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): Hilal bin Umaiya accused his wife before the Prophet (ﷺ) of committing illegal sexual intercourse with Sharik bin Sahma.' The Prophet (ﷺ) said, "Produce a proof, or else you would get the legal punishment (by being lashed) on your back." Hilal said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! If anyone of us saw another man over his wife, would he go to search for a proof." The Prophet (ﷺ) went on saying, "Produce a proof or else you would get the legal punishment (by being lashed) on your back." The Prophet (ﷺ) then mentioned the narration of Lian (as in the Holy Book). (Surat-al-Nur: 24)