تشریح:
(1) عبداللہ بن ابی قبیلۂ خزرج کا سردار تھا۔ اہل مدینہ نے اسے مشترکہ طور پر اپنا رئیس بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کی تاج پوشی کے لیے وقت بھی طے ہو چکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کی وجہ سے اس رسم تاج پوشی کو عمل میں نہ لایا جا سکا۔ رسول اللہ ﷺ کو مشورہ دیا گیا کہ اگر آپ اس کے پاس تشریف لے جائیں گے تو اس کی دلجوئی ہو گی۔ شاید وہ اپنے ساتھیوں سمیت مسلمان ہو جائے۔ اس بنا پر آپ بلاتکلف وہاں چلے گئے، پھر وہاں جو کچھ ہوا وہ حدیث میں مذکور ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فریقین کے درمیان صلح کرا دی۔ یہ دونوں گروہ مسلمان تھے جیسا کہ آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے۔ درج ذیل حدیث میں مزید تفصیل ہے۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان رکھا ہوا تھا اور آپ کے نیچے مقام فدک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ آپ نے اس سواری پر اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو بٹھایا۔ آپ حارث بن خزرج قبیلے میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی تیمارداری کرنا چاہتے تھے۔ یہ غزوۂ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ ایک مجلس پر سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست مشرک اور یہودی سب شریک تھے۔ اس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ وہاں حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گردوغبار پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپاتے ہوئے کہا: ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اتر کر سلام کیا اور وہاں رُک گئے، انہیں اللہ کی طرف بلایا اور انہیں قرآن مجید پڑھ کر سنایا۔ عبداللہ بن ابی بولا: صاحب! یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اگر تم صحیح کہتے ہو تو ہماری مجلسوں میں آ کر تکلیف نہ دیا کرو۔ اپنے گھر جاؤ، ہم میں سے جو تمہارے پاس آئے اسے تبلیغ کرو۔ رد عمل کے طور پر حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہماری مجالس میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ پھر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو میں میں ہونے لگی۔ قریب تھا کہ ایک دوسرے پر حملہ کر دیں، لیکن رسول اللہ ﷺ انہیں مسلسل خاموش کراتے رہے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد آپ اپنی سواری پر بیٹھ کر حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ نے ان سے فرمایا: ’’سعد! تم نے سنا ہے آج ابو حباب نے کیا بات کہی ہے؟‘‘ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی اور اس کی باتوں کی طرف تھا۔ حضرت سعد ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! اسے معاف کر دیں اور اس سے درگزر فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق دیا ہے جو آپ کے شایانِ شان تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس بستی (مدینہ طیبہ) کے لوگ (آپ کی تشریف آوری سے پہلے) اس کی تاج پوشی اور دستار بندی پر متفق ہو گئے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبے کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو اسے حسد ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے اس نے یہ کردار ادا کیا ہے جو آپ نے ملاحظہ فرمایا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے رفع دفع کر دیا۔ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6254) (2) اس مقام پر ایک مشہور سوال ہے کہ حدیث مذکور کے مطابق جھگڑا صحابۂ کرام ؓ اور عبداللہ بن ابی کے ساتھیوں کے درمیان ہوا تھا جبکہ اس وقت عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، لہذا یہ صلح اہل ایمان کے مابین تصور نہیں ہو گی۔ اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کی تفسیر کے مطابق عبداللہ بن ابی کی قوم سے کچھ لوگ مسلمان تھے، انہوں نے عصبیت کی بنا پر عبداللہ بن ابی کی مدد کی تھی۔ (عمدة القاري:575/9)