تشریح:
1۔ اس عنوان کے دو حصے ہیں:©۔ غسل کرنا، چونکہ طواف نساء جماع سے کنایہ ہے اور اس کے لوازمات سے فریضہ غسل ہے۔
©۔ خوشبو کا اثر باقی رہنا، اس کا ثبوت حضرت عائشہ ؓ کے جواب سے ہے، انھوں نے حضرت ابن عمر ؓ بات رد کرتے ہوئے فرمایا۔ نیز دوسری حدیث میں مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھنا بھی عنوان کے اس دوسرے حصے کے مطابق ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث محرم کے بدن پرخوشبو کے اثرات باقی رہنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ اگرخوشبو پہلے سےلگی ہوئی ہوتو حالت احرام کے خلاف نہیں اور نہ اس کی وجہ سے کفارہ ہی لازم آتا ہے۔ البتہ احرام کے بعد خوشبو کا استعمال درست نہیں۔ (فتح الباري:495/1)
2۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم بخاری میں اس عنوان کا یہ مقصد بیان کیا ہے کہ غسل یا وضو میں اعضاء کو ملنا ضروری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے جسم اطہر پر غسل کے بعد بھی خوشبو کا اثر باقی رہا۔ اگر آپ نے بدن کوملا ہوتا یا اس میں مبالغہ کیا ہوتا تو خوشبو یا اس کے اثرات کا باقی رہنا مشکل تھا۔ ہم شاہ صاحب کے بیان پر مزید اضافہ کرتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے غسل سے متعلقہ دومسائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ©۔ خوشبو کے استعمال کے بعد جب مجامعت کا عمل کیا تو بدن ناپاک ہوگیا اور بدن کی ناپاکی سے خوشبو کا متاثر ہونا بھی یقینی ہے، اب اگرغسل کے بعد ایسی خوشبو کا اثر باقی رہے تو شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟ امام صاحب نے بتا دیا کہ وہ خوشبو جو جنابت کے اثرسے متاثر تھی غسل کے بعد طاہر ہے اور غسل بھی معتبر ہے، نیز جنابت کی حالت میں جنابت سے متاثر شدہ خوشبو کا غسل کے بعد باقی رہنا مضر نہیں۔ ©۔ بدن پر خوشبو یا تیل کے استعمال کے بعد غسل کیا جائے تو ایسی حالت میں پانی جسم پر بہت کم نفوذ کرتا ہے، کیونکہ خوشبو یا تیل کی چکناہٹ جلد کی تہہ تک پانی پہنچانے میں بعض اوقات رکاوٹ بن جاتی ہے، اس قسم کے غسل کی کیا حیثیت ہے؟ اس عنوان سے معلوم ہوا کہ غسل صحیح ہے اور اس قسم کے خیالات شریعت کی نظر میں ناقابل التفات ہیں۔