قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصُّلْحِ (بَابُ الصُّلْحِ بَيْنَ الغُرَمَاءِ وَأَصْحَابِ المِيرَاثِ وَالمُجَازَفَةِ فِي ذَلِكَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «لاَ بَأْسَ أَنْ يَتَخَارَجَ الشَّرِيكَانِ، فَيَأْخُذَ هَذَا دَيْنًا وَهَذَا عَيْنًا، فَإِنْ تَوِيَ لِأَحَدِهِمَا لَمْ يَرْجِعْ عَلَى صَاحِبِهِ»

2709. حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: تُوُفِّيَ أَبِي وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَعَرَضْتُ عَلَى غُرَمَائِهِ أَنْ يَأْخُذُوا التَّمْرَ بِمَا عَلَيْهِ، فَأَبَوْا وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ فِيهِ وَفَاءً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: «إِذَا جَدَدْتَهُ فَوَضَعْتَهُ فِي المِرْبَدِ آذَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»، فَجَاءَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَجَلَسَ عَلَيْهِ، وَدَعَا بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ قَالَ: «ادْعُ غُرَمَاءَكَ، فَأَوْفِهِمْ»، فَمَا تَرَكْتُ أَحَدًا لَهُ عَلَى أَبِي دَيْنٌ إِلَّا قَضَيْتُهُ، وَفَضَلَ ثَلاَثَةَ عَشَرَ، وَسْقًا سَبْعَةٌ عَجْوَةٌ، وَسِتَّةٌ لَوْنٌ - أَوْ سِتَّةٌ عَجْوَةٌ، وَسَبْعَةٌ لَوْنٌ - فَوَافَيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَغْرِبَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَضَحِكَ، فَقَالَ: «ائْتِ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، فَأَخْبِرْهُمَا»، فَقَالاَ: لَقَدْ عَلِمْنَا إِذْ صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا صَنَعَ أَنْ سَيَكُونُ ذَلِكَ، وَقَالَ هِشَامٌ، عَنْ وَهْبٍ، عَنْ جَابِرٍ: صَلاَةَ العَصْرِ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَبَا بَكْرٍ وَلاَ ضَحِكَ، وَقَالَ: وَتَرَكَ أَبِي عَلَيْهِ ثَلاَثِينَ وَسْقًا دَيْنًا، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ وَهْبٍ، عَنْ جَابِرٍ صَلاَةَ الظُّهْرِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا کہ اگر دو شریک آپس میں یہ ٹھہرا لیں کہ ایک ( اپنے حصہ کو بدل ) قرض وصول کرے اور دوسرا نقد مال لے لے تو کوئی حرج نہیں ۔ اب اگر ایک شریک کا حصہ تلف ہوجائے ( مثلاً قرضہ ڈوب جائے ) تو وہ اپنے شریک سے کچھ نہیں لے سکتا ۔

2709.

حضرت جابر بن عبداللہ  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میرے والد گرامی شہید ہوئے تو ان کے ذمے قرض تھا۔ میں نے قرض خواہوں کے سامنے ایک تجویز پیش کی کہ وہ اس قرض کے عوض میری تمام کھجوریں قبول کر لیں لیکن انھوں نے انکار کردیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کھجوروں سے ان کاقرض پورا نہیں ہوگا، چنانچہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے ان کاتذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’جب تم کھجوریں توڑکر ان کے لیے مخصوص جگہ میں رکھو تو (مجھے) رسول اللہ ﷺ کو اطلاع کرو۔‘‘ میں نے حسب ارشاد جب انھیں توڑ کرکھلیان میں رکھا تو آپ کو اطلاع کی، چنانچہ آپ حضرت ابو بکر  ؓ اور حضرت عمر  ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ آپ کھجوروں کی ڈھیری کے پاس بیٹھ گئے، پھر ان کے متعلق برکت کی دعا کی اور فرمایا: ’’اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ اور ان کا قرض ادا کرو۔‘‘ اب کوئی شخص ایسا نہ رہا جس کا میرے باپ کے ذمے قرض تھا اور میں نے اسے ادا نہ کردیا ہو، اس کے باوجود تیرہ وسق کھجوریں بچ گئیں جن میں سات وسق عجوہ اور چھ وسق لون تھیں یا چھ وسق عجوہ اور سات وسق لون تھیں۔ پھر میں بوقت مغرب رسول اللہ ﷺ سے ملا اور آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ ہنس پڑے اور فرمایا: ’’ابو بکروعمر رضوان اللہ عنھم أجمعین کے پاس جاؤ اورانھیں بھی اس واقعے سے مطلع کرو۔‘‘ (چنانچہ میں نے انھیں بتایا) تو انھوں نے فرمایا: ہم نے تو اسی وقت سمجھ لیا تھا جب رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا کی تھی کہ عنقریب ایسا ہوگا۔ ہشام حضرت جابر  ؓ سے نماز عصر کا ذکر کرتے ہیں اور اس روایت میں سیدنا ابو بکر  ؓ کا اور (رسول اللہ ﷺ کے )ہنسنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ میرے والد کے ذمے تیس وسق کھجوریں قرض تھا۔ ابن اسحاق حضرت جابر  ؓ سے نماز ظہر کا ذکر کرتے ہیں۔