تشریح:
ان دونوں احادیث میں بیعت کرتے وقت ہر مسلمان کی خیرخواہی کا ذکر ہے۔ ایک حدیث میں مکمل دین اسلام کو خیرخواہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کس کے لیے خیرخواہی کی جائے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، حکمرانوں کے لیے اور عام انسانوں کے لیے خیرخواہی کے جذبات رکھیں جائیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:196(55)) اللہ تعالیٰ کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان و یقین رکھا جائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اس کے احکام مانے جائیں اور اس کی نافرمانی سے بچا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ دل و جان سے اس کی تعظیم کی جائے اور اس میں بیان کیے گئے احکام پر عمل کیا جائے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ اس کی لائی ہوئی شریعت کو اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی تسلیم کیا جائے اور آپ کی تعظیم و توقیر میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔ حکمرانوں کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ شرعی معاملات میں ان کا تعاون کیا جائے اور ان کے خلاف بغاوت نہ کی جائے۔ عوام الناس کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی رہنمائی کی جائے اور انہیں تکلیف دینے سے بچا جائے۔