تشریح:
(1) اس حدیث میں جہاد کے موقع پر شرطیں لگانے، اہل حرب کے ساتھ صلح کرنے اور شرائط تحریر کرنے کا ذکر ہے، مختصر طور پر وہ شرائط حسب ذیل ہیں: ٭ دس سال تک باہمی صلح رہے گی، فریقین کی طرف سے لوگوں کی آمدورفت میں کسی کو روک ٹوک نہیں ہو گی۔ ٭ دیگر قبائل کو صوابدیدی اختیار ہو گا، وہ چاہیں تو قریش سے مل جائیں یا مسلمانوں سے الحاق کر لیں، حلیف قبائل کے حقوق بھی یہی ہوں گے۔ ٭ آئندہ سال مسلمانوں کو طواف کعبہ کی اجازت ہو گی۔ مکہ میں داخل ہوتے وقت ان کے ہتھیار ننگے نہیں ہوں گے بلکہ انہیں میانوں میں بند کر کے لانا ہو گا۔ ٭ اگر قریش میں سے کوئی شخص رسول اللہ ﷺکے پاس مسلمان ہو کر چلا آئے تو قریش کے طلب کرنے پر وہ شخص واپس کرنا ہو گا لیکن اگر کوئی اسلام چھوڑ کر قریش سے جا ملے تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے۔ اس شرط پر مسلمان بہت غمگین ہوئے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس شرط کو بھی خوشی سے منظور فرمایا۔ (2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بڑے اور اہم مقصد کے حصول کے لیے چھوٹی چھوٹی جذباتی باتوں کو قربان کر دینا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کی عظمت و حرمت کو برقرار رکھنے کے لیے کفار کی طرف سے بعض نامناسب شرائط قبول کر لیں جیسا کہ آخری شرط ہے۔ اس شرط کے تسلیم کرنے پر حضرت عمر ؓ بہت جذباتی ہو گئے، چنانچہ وہ عمر بھر ان جذبات کے اظہار پر افسوس کرتے رہے اور تلافی کے لیے صدقات و خیرات کرتے رہے۔