باب : اسلام میں داخل ہوتے وقت اور معاملات بیع و شراء میں کون سی شرطیں لگانا جائز ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: The conditions permissible on embracing Islam, and in contracts and transactions)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2733.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا "كے باعث ان عورتوں کا امتحان لیتے تھے۔ ان میں سے جو عورت بھی اس شرط کا اقرار کر لیتی، اسے رسول اللہ ﷺ فرماتے۔ ’’میں نے تجھ سے بیعت لے لی ہے۔‘‘ صرف اس سے یہی کلام کرتے۔ اللہ کی قسم!بیعت کرتے وقت آپ ﷺ کے ہاتھ نے کسی (اجنبی)عورت کے ہاتھ کو مَس نہیں کیا۔ آپ صرف زبانی کلامی گفتگوہی سے)عورتوں سے بیعت لیتے تھے۔
تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: اس عنوان کے تحت جائز اور ناجائز دونوں قسم کی شرائط کا بیان ہے، مثلاً: اسلام لاتے وقت کافر شرط عائد کر سکتا ہے کہ مجھے ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل نہ کیا جائے، یہ تو جائز ہے لیکن یہ شرط ناجائز ہے کہ وہ نماز نہیں پڑھے گا یا زکاۃ ادا نہیں کرے گا۔ (فتح الباري:384/5) امام بخاری ؒ غالباً یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جو شرط شریعت کے مخالف ہو گی اسے مسترد کر دیا جائے گا اور اس کے مطابق عمل کرنا جائز نہ ہو گا اور جو شرائط شریعت کے مطابق ہوں ان کا پورا کرنا ضروری ہے۔ حسب معاہدہ عورتیں شرط میں داخل تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے خود ان کی واپسی کو غلط قرار دے دیا کیونکہ عورتوں کی واپسی فتنے کا باعث بن سکتی تھی۔ مرد تو ان کے چنگل سے نکلنے اور فرار ہونے کی ہمت رکھتے ہیں لیکن عورتوں میں یہ ہمت نہیں ہوتی۔ چونکہ عورتوں کی واپسی شریعت کے مخالف تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود مداخلت فرمائی اور رسول اللہ ﷺ کو اس سے روک دیا۔ اس میں نہ تو رسول اللہ ﷺ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور نہ کفار نے اس پر کوئی اعتراض ہی کیا بلکہ انہوں نے بھی اس ربانی حکم کو تسلیم کر لیا۔ مخالفت کی صورت میں لڑائی ہوتی۔ لڑائیوں نے ان کی کمر پہلے ہی توڑ دی تھی۔ (2) اس میں بیعت کا ذکر ہے کہ عورتوں سے بیعت لیتے وقت مصافحہ وغیرہ نہیں کرنا چاہیے۔ وہ شرائط جن سے اہل ایمان خواتین کا امتحان لیا جاتا تھا انہیں درج ذیل آیت میں بیان کیا گیا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢﴾) ’’اے نبی! جب آپ کے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گی، نہ چوری کریں گی، نہ زنا کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی، اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت لے لیں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں، یقینا اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (الممتحنة:12:60) اس آیت کریمہ میں بیان کردہ چھ شرائط سے عورتوں کا امتحان ہو جاتا۔ اگر وہ مومن ہوتیں تو ان چھ چیزوں کا اعتراف و اقرار کرتیں اور اگر وہ مومن نہ ہوتیں تو ان سے انکار کر دیتیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2616
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2713
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2713
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2713
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا "كے باعث ان عورتوں کا امتحان لیتے تھے۔ ان میں سے جو عورت بھی اس شرط کا اقرار کر لیتی، اسے رسول اللہ ﷺ فرماتے۔ ’’میں نے تجھ سے بیعت لے لی ہے۔‘‘ صرف اس سے یہی کلام کرتے۔ اللہ کی قسم!بیعت کرتے وقت آپ ﷺ کے ہاتھ نے کسی (اجنبی)عورت کے ہاتھ کو مَس نہیں کیا۔ آپ صرف زبانی کلامی گفتگوہی سے)عورتوں سے بیعت لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: اس عنوان کے تحت جائز اور ناجائز دونوں قسم کی شرائط کا بیان ہے، مثلاً: اسلام لاتے وقت کافر شرط عائد کر سکتا ہے کہ مجھے ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل نہ کیا جائے، یہ تو جائز ہے لیکن یہ شرط ناجائز ہے کہ وہ نماز نہیں پڑھے گا یا زکاۃ ادا نہیں کرے گا۔ (فتح الباري:384/5) امام بخاری ؒ غالباً یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جو شرط شریعت کے مخالف ہو گی اسے مسترد کر دیا جائے گا اور اس کے مطابق عمل کرنا جائز نہ ہو گا اور جو شرائط شریعت کے مطابق ہوں ان کا پورا کرنا ضروری ہے۔ حسب معاہدہ عورتیں شرط میں داخل تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے خود ان کی واپسی کو غلط قرار دے دیا کیونکہ عورتوں کی واپسی فتنے کا باعث بن سکتی تھی۔ مرد تو ان کے چنگل سے نکلنے اور فرار ہونے کی ہمت رکھتے ہیں لیکن عورتوں میں یہ ہمت نہیں ہوتی۔ چونکہ عورتوں کی واپسی شریعت کے مخالف تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود مداخلت فرمائی اور رسول اللہ ﷺ کو اس سے روک دیا۔ اس میں نہ تو رسول اللہ ﷺ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور نہ کفار نے اس پر کوئی اعتراض ہی کیا بلکہ انہوں نے بھی اس ربانی حکم کو تسلیم کر لیا۔ مخالفت کی صورت میں لڑائی ہوتی۔ لڑائیوں نے ان کی کمر پہلے ہی توڑ دی تھی۔ (2) اس میں بیعت کا ذکر ہے کہ عورتوں سے بیعت لیتے وقت مصافحہ وغیرہ نہیں کرنا چاہیے۔ وہ شرائط جن سے اہل ایمان خواتین کا امتحان لیا جاتا تھا انہیں درج ذیل آیت میں بیان کیا گیا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢﴾) ’’اے نبی! جب آپ کے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گی، نہ چوری کریں گی، نہ زنا کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی، اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت لے لیں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں، یقینا اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (الممتحنة:12:60) اس آیت کریمہ میں بیان کردہ چھ شرائط سے عورتوں کا امتحان ہو جاتا۔ اگر وہ مومن ہوتیں تو ان چھ چیزوں کا اعتراف و اقرار کرتیں اور اگر وہ مومن نہ ہوتیں تو ان سے انکار کر دیتیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عروہ نے کہا کہ مجھے عائشہ ؓ نے خبر دی کہ رسول کریم ﷺ ہجرت کرنے والی عورتوں کا اس آیت کی وجہ سے امتحان لیا کرتے تھے ”اے مسلمانو ! جب تمہارے یہاں مسلمان عورتیں ہجرت کرکے آئیں تو تم ان کا امتحان لے لو۔“ غفور رحیم تک۔ عروہ نے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ ان عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کرلیتیں تو رسول اللہ ﷺ فرماتے کہ میں نے تم سے بیعت کی، آپ صرف زبان سے بیعت کرتے تھے۔ قسم اللہ کی! بیعت کرتے وقت آپ ﷺ کے ہاتھ نے کسی بھی عورت کے ہاتھ کو کبھی نہیں چھوا، بلکہ آپ صرف زبان سے بیعت لیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں سے بیعت لینے میں صرف زبان سے کہہ دینا کافی ہے، ان کو ہاتھ لگانا درست نہیں ہے۔ جیسے ہمارے زمانہ کے بعض جاہل پیر کرتے ہیں۔ خدا ان سے سمجھے اور ان کو ہدایت کرے۔ صلح حدیبیہ شرائط معلومہ کے ساتھ کی گئی، جن میں بعض شرطیں بظاہر مسلمانوں کے لیے ناگوار بھی تھیں، مگر بہر حال ان ہی شرائط پر صلح کا معاہدہ لکھاگیا، اس سے ثابت ہوا کہ ایسے مواقع پر فریقین مناسب شرطیں لگاسکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa (RA): Aisha (RA) told me, "Allah's Apostle (ﷺ) used to examine them according to this Verse: "O you who believe! When the believing women come to you, as emigrants test them . . . for Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful." (60.10-12) Aisha (RA) said, "When any of them agreed to that condition Allah's Apostle (ﷺ) would say to her, 'I have accepted your pledge of allegiance.' He would only say that, but, by Allah he never touched the hand of any women (i.e. never shook hands with them) while taking the pledge of allegiance and he never took their pledge of allegiance except by his words (only)."