تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کے مفاد کے پیش نظر ایک معین مدت تک کے لیے کفار سے صلح کرنا جائز ہے اور ان کے درمیان جو شرائط طے ہوں انہیں لکھ لینا چاہیے، ان پر گواہی بھی تحریر کر لی جائے تاکہ فریقین میں سے جو صلح توڑنا چاہے اس کے خلاف گواہی دی جا سکے۔ (2) واضح رہے کہ حضرت ابو بصیر ؓ ساحل سمندر پر عیص نامی مقام پر ٹھہرے اور ابو جندل ؓ بھی بھاگ کر وہاں آ گئے۔ اس طرح وہاں ستر سوار جمع ہو گئے قریش کا جو تجارتی قافلہ آتا اسے لوٹ لیتے۔ آخر کار قریش نے تنگ آ کر معاہدے کی آخری شرط ختم کر دی اور رسول اللہ ﷺ سے مطالبہ کیا کہ ابو بصیر ؓ کی کاروائیوں کو بند کیا جائے۔ آخر کار رسول اللہ ﷺ نے اپنا ایک خط حضرت ابو بصیر ؓ کے نام روانہ فرمایا۔ انہیں جب خط ملا تو وہ حالت نزع میں تھے۔ انہوں نے آپ ﷺ کا گرامی نامہ ہاتھ میں پکڑا اور اسے پڑھتے پڑھتے اپنی جان، جانِ آفریں کے حوالے کر دی ۔۔۔ رضي اللہ عنه ۔۔۔ (عمدةالقاري:647/9)