تشریح:
(1) امام مسلم ؓ نے یہ روایت ذکر کرنے کے بعد ابن عمر ؓ کا یہ فرمان بھی نقل کیا ہے: جب سے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے میں نے ایک رات بھی ایسی نہیں گزاری کہ میری وصیت میرے پاس نہ ہو۔ (صحیح مسلم، الوصیة، حدیث:4207 (1627)) اس حدیث میں تحریری وصیت کا ذکر مبالغے کے طور پر ہے کہ اس کا اہتمام کرنا چاہیے ورنہ کتابت کے بغیر بھی وصیت کو گواہی کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے۔ (2) اس حدیث کے مطابق وصیت کا لکھا ہوا ہونا ہر وقت ضروری ہے کیونکہ موت کا علم نہیں کب اللہ کی طرف سے پیغام آ جائے اور انسان کا اخروی سفر شروع ہو جائے۔ اس بنا پر سفر کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے اور دنیوی طور پر جو لین دین ہے وہ لکھا ہوا اپنے پاس تیار رکھے جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کے عمل سے پتہ چلتا ہے۔ (3) حدیث کے آخر میں ذکر کردہ متابعت کو امام دارقطنی ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ مذکورہ حدیث سے کچھ مختلف ہیں۔ (سنن الدارقطني:90/4، وفتح الباري:439/5) بہرحال انسان جن فرائض و واجبات میں کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے، ان کے لیے وصیت ضروری ہے اور جن میں کوتاہی نہیں کی ان کے لیے مستحب ہے۔ واللہ أعلم