قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الوَصَايَا (بَابُ الوَصَايَا وَقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «وَصِيَّةُ الرَّجُلِ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ»)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ المَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا، الوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى المُتَّقِينَ، فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ، إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ، فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا، فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ، فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ، إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ} " جَنَفًا: مَيْلًا مُتَجَانِفٌ مَائِلٌ "

2738. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ، يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ» تَابَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ آدمی کی وصیت لکھی ہوئی ہونی چاہیے اور اللہ تعالی نے سورہ بقرہ میں فرمایا کہ ” تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی معلوم ہو اور کچھ مال بھی چھوڑرہا ہو تو وہ والدین اور عزیزوں کے حق میں دستور کے موافق وصیت کرجائے۔ یہ لازم ہے پرہیزگاروں پر۔ پھر جو کوئی اسے اس کے سننے کے بعد بدل ڈالے سو اس کا گناہ اسی پر ہوگا جو اسے بدلے گا‘ بے شک اللہ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے۔ البتہ جس کسی کو وصیت کرنے والے سے متعلق کسی کی طرفداری یا حق تلفی کا علم ہوجائے پھر وہ موصی لہ اور وارثوں میں ( وصیت میں کچھ کمی کر کے ) میل کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑا بخشش کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے ( آیت میں ) جنفاکے معنی ایک طرف جھک جانے کے ہیں‘ متجانف کے معنی جھکنے والے کے ہیں۔ وصیت کہتے ہیں مرتے وقت آدمی کا کچھ کہہ جانا کہ میرے بعد ایسا ایسا کرنا‘ فلاں کو یہ دینا فلاں کو یہ۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لئے وصیت کی ہو اس کو موصی لہ کہتے ہیں۔ آیت میراث نازل ہونے کے بعد صرف تہائی مال میں وصیت کرنا جائز قرار دیا گیا‘ باقی مال حصہ داروں میں تقسیم ہوگا۔

2738.

حضرت عبداللہ بن عمر  ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کو یہ لائق نہیں کہ وہ اپنی کسی چیز میں وصیت کرنا چاہتا ہومگر دو راتیں بھی اس حالت میں گزارے کہ اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو۔‘‘ محمد بن مسلم نے عمرو کے ذریعے سے ابن عمر  ؓ کے نبی کریم ﷺ سے روایت کرنے میں مالک کی متابعت کی ہے۔