تشریح:
1۔ کتاب الوضو کے آغاز میں امام بخاری ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا: ’’غسل جنابت سے پہلے وضو کرنا‘‘ وہاں غسل جنابت سے پہلے وضو کرنے کی اہمیت وحیثیت بیان فرمائی تھی، مگر یہ بات کہ اس وضو کے بعد جب غسل کرتے تو کیا پھر بھی اعضائے وضو کو دھونے کا اعادہ کرے یا اس کی ضرورت نہیں؟ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اس بات کی وضاحت کردی کہ اس کے اعادے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ اعضاء ایک مرتبہ دھل چکے ہیں اور غسل جنابت میں تمام اعضائے جسم کا دھل جانا کافی ہے، خواہ ان کادھونا وضوکے طورپرہو یا غسل کے طور پر، اسی طرح غسل کے بعد دوبارہ وضو کرنے کی بھی ضرورت نہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد وضو نہیں فرمایا کرتے تھے۔ (جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 107) 2 ۔علامہ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ اس عنوان کے مطابق تو حدیث عائشہ ؓ رقم (172) تھی جس میں ہے کہ وضو سے فراغت کے بعد جسم کے باقی اعضاء دھوتے، مذکورہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں، کیونکہ اس کے الفاظ ہیں: ’’وضو کے بعد ا پنے جسم کو دھوتے۔‘‘ اورجلد کا لفظ عام ہے، اس میں مواضع وضو بھی شامل ہیں۔ (شرح ابن بطال:389/1) جب یہ صورت حال ہے تو عدم اعادہ والی بات کیسے ثابت ہوگئی؟ شارحین اس کے مختلف جواب دیتے ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ©۔ قرینہ حال اور عرف کے تحت سیا ق کلام سے اعضائے وضو مستثنیٰ ہیں، یعنی اعضائے معینہ کے ذکر کے بعد جلد کا ذکر عرف کے طور پر بقیہ جلد کا مفہوم دے رہاہے، اس سے پورا جسم مراد نہیں، کیونکہ اعضائے وضو کو دوبارہ دھونے کاذکر نہیں ہوا۔ (المتواری، ص: 77۔) ©۔ابن تین نے اس کاجواب بایں طور دیا ہے کہ دوسری روایت کے قرینے سے یہاں بقیہ جسم مراد ہے، کیونکہ ترمذی کی روایت میں: (ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ) کے الفاظ ہیں۔ (جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث:103) لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے اس جواب کومحل نظر قراردیا ہے۔ (فتح الباري:497/1) وہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے (ثُمَّ غَسَلَ جَسَدَه) کو مجاز پر محمول کیا ہے۔ اس کی دلیل حدیث کے آخر میں آنے والے الفاظ ’’پھر آپ نے اپنے پاؤں دھوئے ہیں۔‘‘ اگر (غَسَلَ جَسَدَه) کو عام معنی پر محمول کیا جائے تو اس کے بعد پاؤں کا ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی، کیونکہ ان کا دھونا توعموم میں آچکا تھا۔ پھر آپ نے لکھا ہے کہ یہ جواب امام بخاری ؒ کی شان تدقیق اورخصوصی تصرفات کے زیاہ مناسب ہے۔ وہ واضح رہے کہ بجائے دقیق نکات کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ (فتح الباری:497/1) اعضائے وضو کو دوران غسل میں دوبارہ دھونے کی ضرورت اس وقت نہیں ہوگی جب وضوئے شرعی کی نیت سے اعضائے وضو کو غسل سے پہلے دھویا گیا ہو۔ اس کے برعکس اگراعضائے وضو کو صرف ان کی شرافت کی وجہ سے غسل سے پہلے دھویا، وضوئے شرعی کی نیت نہیں کی تو اس صورت میں امام بخاری ؒ نے عدم اعادہ کا فیصلہ نہیں دیا۔