تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے حدیث کے الفاظ ہی کو عنوان قرار دیا ہے، شاید ان کا مقصد یہ ہو کہ جس کے پاس مال تھوڑا ہو یا بالکل نہ ہو اس شخص کا وصیت کرنا اچھا نہیں۔ (فتح الباري:445/5) بعض لوگ دینی طور پر بڑے انتہا پسند ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے شرعی ورثاء کو محروم کر کے اپنی آخرت بنانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس فکر کو پسند نہیں فرمایا۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وصیت ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی اس حد سے بڑھ جائے تو اسے نافذ نہیں کیا جائے گا جبکہ اس کے وارث موجود ہوں، ہاں اگر وارث اجازت دے دیں تو ایک تہائی سے زیادہ وصیت نافذ کی جا سکتی ہے، نیز اگر اس کے وارث نہ ہوں تو بھی تہائی سے زائد وصیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (3) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا مذکورہ واقعہ فتح مکہ کا ہے یا حجۃ الوداع کا، اس سلسلے میں مختلف روایات ہیں۔ ممکن ہے دونوں مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا ہو۔ پہلی مرتبہ فتح مکہ کے موقع پر ایسا ہوا جبکہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اور دوسری دفعہ حجۃ الوداع میں بیمار ہوئے جبکہ ان کے ہاں صرف ایک بیٹی تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں چالیس سال تک زندہ رکھا۔ ان کے چار بیٹے اور بارہ بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے ایران فتح کیا۔ کوفہ کے گورنر بنے۔ غنیمتوں سے مسلمانوں کو مالامال کیا اور کفار و مشرکین کو ان کے جنگ و قتال سے زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔ آپ مستجاب الدعوات تھے، یعنی اللہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول فرماتا تھا چنانچہ کوفہ کے ایک شکایت کرنے والے کو آپ کی بددعا سے بہت نقصان ہوا۔ (فتح الباري:446/5 447)