تشریح:
(1) امت کا اس امر پر اجماع ہے کہ جس میت کا وارث ہو، ایک تہائی سے زیادہ وصیت اس کے لیے جائز نہیں لیکن اگر کوئی وارث نہ ہو تو کیا تہائی سے زیادہ کی وصیت کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ جمہور اہل علم کہتے ہیں: تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنا کسی صورت میں جائز نہیں۔ ایک تہائی بطور وصیت خرچ کرنے کے بعد دو تہائی بیت المال میں جمع کر دیا جائے، لیکن احناف کا موقف ہے کہ وارث نہ ہونے کی صورت میں تہائی مال سے زیادہ وصیت جائز ہے کیونکہ قرآن کریم نے مطلق طور پر وصیت کا ذکر کیا ہے، پھر سنت نے اسے مقید کیا ہے کہ ورثاء موجود ہونے کی صورت میں ایک تہائی تک وصیت کی جائے۔ جس کا وارث نہ ہو وہ قرآن کریم کے اطلاق پر رہے گا اور تہائی سے زیادہ وصیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق ورثاء کی عدم موجودگی میں ایک تہائی سے زیادہ وصیت کی جا سکتی ہے کیونکہ وصیت کی تعیین صرف حقوق ورثاء کے پیش نظر ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓسے فرمایا تھا، اس لیے اگر ورثاء نہیں ہیں تو ایک تہائی سے زیادہ وصیت کی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ وصیت کسی برے کام کے لیے نہیں ہونی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہاری وفات کے وقت تمہارے تہائی مال کے بدلے تمہاری نیکیوں میں اضافے کا صدقہ کیا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے سے تمہارے اچھے اعمال میں اضافہ کرے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الوصایا، حدیث:2709) یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ تہائی مال کی وصیت نیکیوں میں اضافے کا باعث ہے اور گناہ کے کام میں وصیت کرنا جائز نہیں کیونکہ کتاب و سنت نے گناہ سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ واللہ اعلم (2) امام بخاری ؒ نے تہائی مال کی مشروعیت کو بیان کیا ہے۔ اگر ورثاء فقیر ہوں تو بہتر ہے کہ تہائی مال سے کم کی وصیت کی جائے جیسا کہ ابن عباس ؓ کا ارشاد ہے۔ اگر ورثاء مال دار ہیں تو پھر تہائی مال تک وصیت کی گنجائش ہے۔