تشریح:
1۔ ابن بطال ؒ نے بعض تابعین ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر کوئی جنبی شخص بھول کر مسجد میں داخل ہو جائے، جب اسے یاد آئے تو تیمم کر کے مسجد سے نکلے۔ امام ثوری ؒ اور اسحاق ؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ (شرح ابن بطال:389/1) امام بخاری ؒ نے ان حضرات کی تردید میں اس عنوان کو قائم کیا ہے، یعنی جنبی آدمی مسجد میں آگیا، اسے خیال نہ تھا کہ مجھے نہانے کی ضرورت ہے، بعد میں اسے یاد آیا کہ میں تو جنبی ہوں، اب نکلنے کی کیا صورت ہوگی؟ آیا تیمم کرے، پھر نکلے یا فوراً مسجد سے باہر آ جائے؟ امام بخاری ؒ نے اپنا مسلک واضح کردیا ہے کہ یاد آنے پر اسے فوراً مسجد سے نکل آنا چاہے، اسے تیمم کے بقدر ٹھہرنے کی اجازت نہیں، البتہ مجبوری کے احکام اس سے مستثنیٰ ہوں گے، مثلاً:©۔ کوئی آدمی مسجد میں سو رہا ہے، اسے احتلام ہوگیا، ادھر رات بہت اندھیری ہے۔ باہر نہیں جا سکتا۔ ©۔ مسجد کے باہر کوئی درندہ وغیرہ کھڑا ہے جس سے جان کو خطرہ ہے۔ ©۔ باہر بہت تیز بارش ہو رہی ہے۔ ایسے حالات میں وہ مسجد میں بیٹھا رہے اور اللہ سے توبہ کرتا رہے۔
2۔ حدیث سے امام بخاری ؒ کے استدلا ل کی علامہ سندھی ؒ نے بایں الفاظ وضاحت کی ہے کہ احادیث کے بیان کرنے سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مقصد کوئی قصہ سرائی یا داستان گوئی نہ ہوتا تھا، بلکہ وہ واقعات کو صرف مسائل شرعیہ بیان کرنے کے لیے سنایا کرتے تھے۔ اگراس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے تیمم کیا ہوتا توحضرت ابوہریرۃ ؓ اس کا ضرور تذکرہ کرتے، اس لیے یہ سکوت محل بیان کا سکوت ہے جو بیان کا حکم رکھتا ہے۔ ایسے مواقع پر عدم الذکر عدم وجود کی دلیل ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد سے نکلتے وقت تیمم نہیں کیا تھا۔ (حاشیة السندي:60/1) اس سے معلوم ہواکہ اگر مسجد میں داخل ہونے کے بعد جنابت کا خیال آئے تو تیمم کا انتظار کیے بغیر فوراً مسجد سے نکل آنا چاہیے۔ مسجد کے تقدس کے پیش نظر مسجد کی دیوار سے بھی تیمم کرنے کی اجازت نہیں۔
3۔ امام بخاری ؒ نے اس کی تائید میں دو متابعتیں پیش فرمائی ہیں: ©۔ عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلیٰ بصری نے بواسطہ معمر زہری سے روایت کرنے میں عثمان بن عمر کی متابعت کی ہے جسے امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنی مسند میں موصولاً بیان کیا ہے۔ ©۔ امام اوزاعی ؒ نے بھی حضرت ابن شہاب زہری سے اس روایت کو بیان کیا ہے جسے امام بخاری ؒ نے خود أبواب الإمامة کے اوائل میں باسند بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:497/1)