تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت حکیم بن حزام ؓ کو عطیہ قبول کرنے میں عدم رغبت کی طرف توجہ دلائی اور عطیہ لینے والے کے ہاتھ کو نچلا ہاتھ بتایا۔ وصیت بھی صدقے کی طرح ہے، اس لیے اسے قبول کرنے والے کا ہاتھ ید سفلی ہو گا جبکہ قرض کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اس میں وصول کرنے والے کا ہاتھ نچلا نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی دی ہوئی رقم وصول کر رہا ہے، اس لیے اسے وصول کرنے کے لیے زبردستی کی جا سکتی ہے۔ اس اعتبار سے قرض، عطیے اور صدقے سے قوی ہے، لہذا اسے مقدم کرنا چاہیے۔ (2) حضرت عمر ؓ نے ان کی حق دہی کے متعلق بہت کوشش کی اور قرض کی طرح انہیں اس کا حق دار قرار دیا۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جب قرض متعین ہو تو نفلی صدقہ کرنے سے پہلے اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ واللہ أعلم