قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الوَصَايَا (بَابُ تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 11])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَيُذْكَرُ «أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَى بِالدَّيْنِ قَبْلَ الوَصِيَّةِ» وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا} [النساء: 58] «فَأَدَاءُ الأَمَانَةِ أَحَقُّ مِنْ تَطَوُّعِ الوَصِيَّةِ» وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «لاَ صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى» وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «لاَ يُوصِي العَبْدُ إِلَّا بِإِذْنِ أَهْلِهِ» وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ «العَبْدُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ» ‏ ‏‏.‏

2750. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ، بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ، لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، وَاليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى»، قَالَ حَكِيمٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ لاَ أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا لِيُعْطِيَهُ العَطَاءَ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ المُسْلِمِينَ، إِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ، الَّذِي قَسَمَ اللَّهُ لَهُ مِنْ هَذَا الفَيْءِ، فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ، فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ رَحِمَهُ اللَّهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قرض کو وصیت پر مقدم کر نے کا حکم دیا اور ( اس سورت میں ) یہ فرمانے کی اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچاؤ تو امانت ( قرض ) کا ادا کرنا نفل وصیت کے پورا کرنے سے زیادہ ضروری ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا صدقہ وہی عمدہ ہے جس کے بعد آمی مالدار رہے اور ابن عباس ؓ نے کہا غلام بغیر اپنے مالک کی اجازت کے وصیت نہیں کر سکتا اور آنحضرتﷺ نے فرمایا غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے۔

2750.

حضرت حکیم بن حزام  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا۔ میں نے پھر مانگا تو آپ نے پھر عطا فرمادیا۔ آخر کار آپ نے فرمایا: ’’اے حکیم! دنیا کایہ مال (دیکھنے میں ) خوشن اور (ذائقے میں) شیری ہے لیکن جو اس کو دل کی سخاوت اور سیر چشمی سے لے تو اسکے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو کوئی اسے طمع اور لالچ سے لے، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی۔ یہ اس شخص کی طرح ہے جو اسے کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ حضرت حکیم  ؓ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے!میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں لوں گا حتیٰ کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیق ؓ حضرت حکیم  ؓ کو وظیفہ دینے کے لیے بلاتے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے۔ پھر حضرت عمر فاروق  ؓ انھیں وظیفہ دینے کے لیے طلب کرتے تو وہ اس کے لینے سے انکار کردیتے۔ حضرت عمر  ؓ نے ان کی روش کے پیش نظر فرمایا: مسلمانو!تم گواہ رہو، میں انھیں وہ حق پیش کرتا ہوں جو اللہ نے مال فے میں ان کے لیے مقرر کیا ہے لیکن وہ لینے سے انکار کردیتے ہیں۔ الغرض حضرت حکیم بن حزام  ؓ نے نبی کریم ﷺ کے بعد پھر کسی سے کوئی چیز قبول نہیں کی حتیٰ کہ فوت ہوگئے اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔