تشریح:
(1) وقف کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی وقف کی ہوئی چیز کی حدود کو متعین کرے، مثلاً: بہت سے باغات ہیں تو جب تک وقف کے لیے کسی باغ کا تعین نہیں کرے گا وقف صحیح نہیں ہو گا۔ اسی طرح جب کوئی زمین وقف کرے اور اس کی حدود اربعہ کا ذکر نہ کرے تو وقف جائز ہے بشرطیکہ لوگوں میں اس کی حدود اربعہ معروف ہوں، بصورت دیگر اس کی حدود اربعہ متعین کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر وقف صحیح نہیں ہو گا کیونکہ حدود متعین نہ ہونے کی صورت میں دوسری حدود سے التباس کا اندیشہ ہے۔ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بہرحاء کا باغ ممتاز اور اس کی حدود متعین تھیں، اس کے التباس کا اندیشہ نہیں تھا، اس لیے حدود ذکر نہیں کی گئیں۔ (2) حکم کے اعتبار سے صدقہ اور وقف ملتے جلتے ہیں اور ان کا ایک ہی حکم ہے۔ (3) امام بخاری ؒ نے اسماعیل بن ابی اویس کی روایت کو "کتاب التفسیر" میں، عبداللہ بن یوسف کی روایت کو "کتاب الزکاۃ" میں اور یحییٰ بن یحییٰ کی روایت کو "کتاب الوکالۃ" میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:486/5)