کسی نے اپنی کوئی چیز یا لونڈی ، غلام یا جانور صدقہ یا وقف کیا تو جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: To give part of wealth or slaves or animals in charity or as an endowment)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( مطلب یہ کہ مال مشترک مال منقولہ کا بھی وقف درست ہے )
2777.
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! میری توبہ کا اتمام یہ ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر قربان کرکے اس سے دستبردار ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کچھ اپنے پاس بھی رکھو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اپنا وہ حصہ اپنے پاس رکھ لیتا ہوں جو خیبر میں ہے۔
تشریح:
(1) اگر کسی نے اپنی جائیداد میں سے کچھ مال صدقہ یا وقف کیا تو بلا اختلاف جائز ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اسی بات کی ترغیب دی ہے کہ کل مال صدقہ کرنے کے بجائے کچھ مال صدقہ کیا جائے تاکہ آئندہ دنیاوی آفات میں فقر و فاقہ سے محفوظ رہے۔ ممکن ہے کہ عمر طویل ہو یا بینائی جاتی رہے یا کمزور تر ہو جائے یا کوئی موذی مرض لاحق ہو جائے جس کے باعث کاروبار بدستور قائم نہ رہ سکے اور اپنے پاس کچھ نہ ہونے کی وجہ سے سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حضرت کعب بن مالک ؓ کو فرمایا: ’’اپنا کچھ مال روک لو تاکہ آئندہ تمہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔‘‘ وقف کی ایک قسم وقف مشاع ہے، یعنی کسی مشترک غیر ممتاز چیز کو وقف کرنا یا وقف منقول جیسا کہ چوپایہ اور آلات زراعت وغیرہ۔ ان کو وقف کرنے کے متعلق آئندہ احادیث ذکر ہوں گی۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے یہ باب منقول کے لیے قائم کیا ہے جبکہ امام ابو حنیفہ ؒ اس کے قائل نہیں ہیں۔ اس سے وقف مشاع کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے جبکہ امام محمد بن حسن اس کے مخالف ہیں۔ (فتح الباري:473/5) لیکن ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ نے اپنے مال سے کچھ حصہ وقف یا صدقہ کرنے کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ وقف مشاع اور منقول سے متعلق احادیث آگے بیان ہوں گی۔ واللہ أعلم۔ واضح رہے کہ حضرت کعب بن مالک ؓ کا واقعہ تفصیل کے ساتھ آئندہ بیان ہو گا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4418)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2657
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2757
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2757
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2757
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
( مطلب یہ کہ مال مشترک مال منقولہ کا بھی وقف درست ہے )
حدیث ترجمہ:
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! میری توبہ کا اتمام یہ ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر قربان کرکے اس سے دستبردار ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کچھ اپنے پاس بھی رکھو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اپنا وہ حصہ اپنے پاس رکھ لیتا ہوں جو خیبر میں ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اگر کسی نے اپنی جائیداد میں سے کچھ مال صدقہ یا وقف کیا تو بلا اختلاف جائز ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اسی بات کی ترغیب دی ہے کہ کل مال صدقہ کرنے کے بجائے کچھ مال صدقہ کیا جائے تاکہ آئندہ دنیاوی آفات میں فقر و فاقہ سے محفوظ رہے۔ ممکن ہے کہ عمر طویل ہو یا بینائی جاتی رہے یا کمزور تر ہو جائے یا کوئی موذی مرض لاحق ہو جائے جس کے باعث کاروبار بدستور قائم نہ رہ سکے اور اپنے پاس کچھ نہ ہونے کی وجہ سے سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حضرت کعب بن مالک ؓ کو فرمایا: ’’اپنا کچھ مال روک لو تاکہ آئندہ تمہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔‘‘ وقف کی ایک قسم وقف مشاع ہے، یعنی کسی مشترک غیر ممتاز چیز کو وقف کرنا یا وقف منقول جیسا کہ چوپایہ اور آلات زراعت وغیرہ۔ ان کو وقف کرنے کے متعلق آئندہ احادیث ذکر ہوں گی۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے یہ باب منقول کے لیے قائم کیا ہے جبکہ امام ابو حنیفہ ؒ اس کے قائل نہیں ہیں۔ اس سے وقف مشاع کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے جبکہ امام محمد بن حسن اس کے مخالف ہیں۔ (فتح الباري:473/5) لیکن ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ نے اپنے مال سے کچھ حصہ وقف یا صدقہ کرنے کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ وقف مشاع اور منقول سے متعلق احادیث آگے بیان ہوں گی۔ واللہ أعلم۔ واضح رہے کہ حضرت کعب بن مالک ؓ کا واقعہ تفصیل کے ساتھ آئندہ بیان ہو گا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4418)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا‘ کہاہم سے لیث نے بیان کیا‘ ان سے عقیل نے‘ ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن ابن عبداللہ بن کعب نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن کعب نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک ؓ سے سنا‘ وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میری توبہ (غزوہ تبوک میں نہ جانے کی) قبول ہونے کا شکرانہ یہ ہے کہ میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے راستے میں دے دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر اپنے مال کا ایک حصہ اپنے پاس ہی باقی رکھو تو تمھارے حق میں یہ بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ پھر میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے پاس محفوظ رکھتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
یہ کعب بن مالک ؓ وہ صحابی ہیں جو اپنے دو ساتھیوں سمیت جنگ تبوک میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ نہیں نکلے تھے۔ آپ ایک مدت تک زیر عتاب رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی۔ اس کا مفصل ذکر کتاب المغازی میں آئے گا۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ سارا مال خیرات کردینا مکروہ ہے اور یہ بھی نکلا کہ مال منقولہ کا وقف کرنا بھی جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Kab bin Malik (RA): I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! For the acceptance of my repentance I wish to give all my property in charity for Allah's sake through His Apostle (ﷺ) ." He said, "It is better for you to keep some of the property for yourself." I said, "Then I will keep my share in Khaibar."