باب: بالوں کا خلال کرنا اور جب یقین ہو جائے کہ کھال تر ہو گئی تو اس پر پانی بہا دینا (جائز ہے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: To rub the hair thoroughly (while taking a bath) till one feels that one has made his skin wet (underneath the hair) and the one pours water over it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
278.
حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں اور نبی ﷺ ایک برتن میں غسل کیا کرتے تھے۔ ہم دونوں اس سے چلو بھر بھر کر پانی لیتے تھے۔
تشریح:
1۔ اس سے پہلے حدیث نمبر(248) میں یہ الفاظ تھے کہ پھر آپ تمام جلد پر پانی ڈالتے۔ یہاں سائر کا لفظ استعمال ہواہے۔ اگر یہ لفظ بقیہ کے معنی میں لیا جائے تو اس سے باقی جسم دھونے کی بات ثابت ہوئی اور اگرسائر، سورالبلد سے ہوتوتمام جسم کے دھونے کا ثبوت ہوا، اس طرح دونوں روایات کا معنی ایک ہوجاتا ہے۔ (فتح الباري:496/1) 2۔ غسل جنابت میں صرف پانی بہالینا کافی نہیں، بلکہ اس میں بالوں کی جڑ اور سر کی جلد کاترکرنا ضروری ہے۔ اس کاطریقہ یہ ہے کہ پہلے پانی سے بالوں کی جڑوں کو ترکرلیا جائے۔ جب یقین ہوجائے کہ جلد تر ہوگئی ہے تو پانی کو اپنے اوپر بہا لیاجائے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سرمبارک پر تین لپ پانی ڈالتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسا عمل تخلیل کے بعد ہوتا تھا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری ہے، اوراگر یہ کام خلال کے بغیر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔ امام بخاری ؒ اس مقام پر امام احمد بن حنبل ؒ کی تائید فرمارہے ہیں کہ عورتوں کے لیے غسل جنابت میں مینڈھیوں کاکھولنا ضروری نہیں، بلکہ ان کی جڑوں تک پانی پہنچا دینا کافی ہے، جبکہ غسل حیض میں ان مینڈھیوں کا کھولنا ضروری ہے، جیسا کہ آئندہ کتاب الحیض میں ایک عنوان بایں الفاظ آئے گا ’’غسل حیض کے وقت عورت کے لیے اپنے بالوں کو کھولنا‘‘ جبکہ دیگر ائمہ کے نزدیک عورتوں کے لیے غسل جنابت اور غسل حیض میں کوئی فرق نہیں۔ 3۔ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ غسل جنابت میں تخلیل شعر کا ضروری ہونا اتفاقی اور اجماعی مسئلہ ہے اور اسی پر ڈاڑھی کے بالوں کوقیاس کیا گیا ہے، کیونکہ وہ بھی اسی طرح کے بال ہیں، البتہ ڈاڑھی کے خلال میں کچھ اختلاف ہے، جبکہ حضرت عثمان ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عمار ؓ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، اور حضرت انس ؓ ڈاڑھی کا خلال کرتے تھے۔ (شرح ابن بطال:386/1) امام بخاری ؒ نے ڈاڑھی کے خلال کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا۔ البتہ امام ترمذی ؒ اور امام ابوداود ؒ نے اس پر عنوان قائم کرکے روایات ذکر کی ہیں، شاید وہ روایات امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھیں، چنانچہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب وضو کرتے تو ڈاڑھی کا خلال کرتے اور فرماتے کہ مجھے میرے رب نے ایساکرنے کا حکم دیاہے۔ (سنن بي، داود، الطھارة، حدیث:145) بہرحال غسل جنابت میں جلد تک پانی پہنچانا ضروری ہے اورتمام بالوں کوترکرنا بھی لازم ہے۔ صرف عورتوں کو گندھے ہوئے بالوں کے متعلق اجازت ہے کہ وہ انھیں(غسل جنابت میں) کھولے بغیر اپنے سرپر تین دفعہ پانی ڈال لیں، جیسا کہ حضرت ثوبان ؓ سے اس کی تفصیل مروی ہے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:255)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
274.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
273
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
273
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
273
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
تمہید باب
اس مقام پر تخلیل شعر کی اہمیت بتانا مقصود ہے کہ غسل جنابت کرتے وقت بالوں کی جڑیں اور سر کی کھال کا تر کرنا ضروری ہے یوں ہی پانی بہادینا کافی نہیں ہوگا۔
حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں اور نبی ﷺ ایک برتن میں غسل کیا کرتے تھے۔ ہم دونوں اس سے چلو بھر بھر کر پانی لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس سے پہلے حدیث نمبر(248) میں یہ الفاظ تھے کہ پھر آپ تمام جلد پر پانی ڈالتے۔ یہاں سائر کا لفظ استعمال ہواہے۔ اگر یہ لفظ بقیہ کے معنی میں لیا جائے تو اس سے باقی جسم دھونے کی بات ثابت ہوئی اور اگرسائر، سورالبلد سے ہوتوتمام جسم کے دھونے کا ثبوت ہوا، اس طرح دونوں روایات کا معنی ایک ہوجاتا ہے۔ (فتح الباري:496/1) 2۔ غسل جنابت میں صرف پانی بہالینا کافی نہیں، بلکہ اس میں بالوں کی جڑ اور سر کی جلد کاترکرنا ضروری ہے۔ اس کاطریقہ یہ ہے کہ پہلے پانی سے بالوں کی جڑوں کو ترکرلیا جائے۔ جب یقین ہوجائے کہ جلد تر ہوگئی ہے تو پانی کو اپنے اوپر بہا لیاجائے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سرمبارک پر تین لپ پانی ڈالتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسا عمل تخلیل کے بعد ہوتا تھا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری ہے، اوراگر یہ کام خلال کے بغیر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔ امام بخاری ؒ اس مقام پر امام احمد بن حنبل ؒ کی تائید فرمارہے ہیں کہ عورتوں کے لیے غسل جنابت میں مینڈھیوں کاکھولنا ضروری نہیں، بلکہ ان کی جڑوں تک پانی پہنچا دینا کافی ہے، جبکہ غسل حیض میں ان مینڈھیوں کا کھولنا ضروری ہے، جیسا کہ آئندہ کتاب الحیض میں ایک عنوان بایں الفاظ آئے گا ’’غسل حیض کے وقت عورت کے لیے اپنے بالوں کو کھولنا‘‘ جبکہ دیگر ائمہ کے نزدیک عورتوں کے لیے غسل جنابت اور غسل حیض میں کوئی فرق نہیں۔ 3۔ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ غسل جنابت میں تخلیل شعر کا ضروری ہونا اتفاقی اور اجماعی مسئلہ ہے اور اسی پر ڈاڑھی کے بالوں کوقیاس کیا گیا ہے، کیونکہ وہ بھی اسی طرح کے بال ہیں، البتہ ڈاڑھی کے خلال میں کچھ اختلاف ہے، جبکہ حضرت عثمان ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عمار ؓ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، اور حضرت انس ؓ ڈاڑھی کا خلال کرتے تھے۔ (شرح ابن بطال:386/1) امام بخاری ؒ نے ڈاڑھی کے خلال کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا۔ البتہ امام ترمذی ؒ اور امام ابوداود ؒ نے اس پر عنوان قائم کرکے روایات ذکر کی ہیں، شاید وہ روایات امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھیں، چنانچہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب وضو کرتے تو ڈاڑھی کا خلال کرتے اور فرماتے کہ مجھے میرے رب نے ایساکرنے کا حکم دیاہے۔ (سنن بي، داود، الطھارة، حدیث:145) بہرحال غسل جنابت میں جلد تک پانی پہنچانا ضروری ہے اورتمام بالوں کوترکرنا بھی لازم ہے۔ صرف عورتوں کو گندھے ہوئے بالوں کے متعلق اجازت ہے کہ وہ انھیں(غسل جنابت میں) کھولے بغیر اپنے سرپر تین دفعہ پانی ڈال لیں، جیسا کہ حضرت ثوبان ؓ سے اس کی تفصیل مروی ہے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:255)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں اور رسول کریم ﷺ ایک برتن میں غسل کرتے تھے۔ ہم دونوں اس سے چلو بھر بھر کر پانی لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہواکہ جنابت کے غسل میں انگلیاں بھگوکر بالوں کی جڑوں میں خلال کرے، جب یقین ہوجائے کہ سر اور داڑھی کے بال اور اندر کا چمڑا بھیگ گئے ہیں، تب بالو ں پر پانی بہائے۔ یہ خلال بھی آداب غسل سے ہے۔ جو امام مالک ؒ کے نزدیک واجب اور جمہور کے نزدیک صرف سنت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Aisha (RA) further said, "I and Allah's Apostle (ﷺ) used to take a bath from a single water container, from which we took water simultaneously."