تشریح:
1۔اللہ تعالیٰ نے مجاہد کے لیے ضمانت دی ہے کہ اگروہ شہید ہوجائے تو اسے مرنے کے فوراً بعد جنت میں داخل کردے گا۔اور اگر وہ اللہ کی راہ میں کام نہ آئے بلکہ وہ سلامتی کے ساتھ واپس آجائے تو اللہ تعالیٰ ثواب اور غنیمت عطا کرے گا،یہ نہیں ہوسکتا کہ سلامتی کی صورت میں اسے کچھ حاصل نہ ہو،بلکہ اسے غنیمت اور اجر دونوں ملیں گے یا کم از ایک توضرور ملےگا۔ 2۔اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نیت کاحال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے،اگر وہ مخلص ہے تو وہ مجاہد ہوگا اگرمخلص نہیں بلکہ دنیا کے مال ومتاع یا اپنی شہرت کے لیے میدان جنگ میں اترا ہے تو وہ مجاہد فی سبیل اللہ نہیں ہے اور نہ وہ اللہ کے ہاں کسی قسم کے اجر کا ہی حق دار ہے،نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مجاہد فی سبیل اللہ کا کوئی لمحہ بھی اجروثواب سے خالی نہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٢٠﴾ وَلَا يُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّـهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ) ’’مجاہدین اللہ کی راہ میں پیاس،تکان اور بھوک کی جو بھی مصیبت برداشت کرتے ہیں یا کوئی ایسا مقام طے کرتے ہیں جو کافروں کو ناگوار ہویا دشمن پر ہو کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں تو ان کے لیے نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ اچھے کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا،نیز یہ مجاہدین جو بھی تھوڑا یا زیادہ خرچ کرتے ہیں یا کوئی وادی طے کرتے ہیں تو یہ چیزیں ان کے حق میں لکھ دی جاتی تاکہ اللہ انھیں ان کے اعمال کا بہترصلہ دے جو وہ کرتے ہیں۔‘‘ (التوبة:9/:120۔121) یعنی جہاد کے سفر میں مجاہد کے ہر ایک فعل کے بدلے ایک عمل صالح،اس کے اعمال نامے میں لکھ دیاجاتا ہے،خواہ اس کا یہ فعل اختیاری ہو یا غیر اختیاری،ان تمام کاموں کا اللہ کے ہاں اسے اجر ملے گا۔