تشریح:
1۔جب رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے یا نہ کرنے کو دخول جنت میں برابر قراردیا تو اس سے مخاطب بہت خوش ہوا کہ اس پر جہاد کی مشقت نہیں رہی۔رسول اللہ ﷺ نے جہاد کی اہمیت اورفضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’جنت میں سودرجات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لیے تیار کیے ہیں۔‘‘ اس سے جہاد کی فضیلت اور مجاہدین کے درجات کا پتہ چلتا ہے۔2۔مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو جہاد نصیب نہیں ہوتا لیکن دوسرے فرائض وواجبات ادا کرتاہے اور اسی حالت میں اسے موت آجائے تو آخرت میں اسے جنت نصب ہوگی اگرچہ اس کادرجہ مجاہدین سے کم ہوگا۔3۔امام ترمذی ؒ کی روایت میں ہے: ’’فردوس ،اعلیٰ درجے کی جنت ہے اور اسی درجے سے جنت کی چار نہریں پھوٹتی ہیں اور اس کے اوپر اللہ کا عرش ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، صفة الجنة، حدیث: 2531) ان چاروں نہروں سے مراد پانی،دودھ،شہد اور شراب طہور کی نہریں ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔امام بخاری ؒ نے آخر میں جس طریق کاحوالہ دیا ہے اسے آئندہ متصل سند سے بیان کیاہے۔اس روایت میں کسی شک کے بغیر (وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ)کے الفاظ ہیں۔(صحیح البخاري، التوحید، حدیث 7423) 4۔اس حدیث سے جہاد کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے،چنانچہ امام حاکم ؒ نے ایک روایت بیان کی ہے:’’جو کوئی سچی نیت سے جہاد کی خواہش رکھے،پھر وہ فوت ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اسے شہید کا ثواب عطا فرمائے گا۔‘‘ (المستدرك للحاکم:77/2 و صحیح الجامع الصغیر ، حدیث: 6277)