تشریح:
1۔رسول اللہ ﷺ رات کے وقت خوف زدگی کے عالم میں تن تنہا تشریف لے گئے اور دشمن کا کچھ بھی ڈر محسوس نہ کیا۔ 2۔اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا حسن و جمال جرات و شجاعت اور جود و سخاوت بیان ہوئی ہے آپ ﷺ نے کبھی کسی سائل کو محروم نہیں کیا۔کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔جس شخص نے معافی طلب کی اسے معاف کردیا۔ آپ ایسے عبادت گزار کے رات بھر نماز پڑھتے پاؤں پر ورم آجاتا۔ آپ کی تدبیر ورائے ایسی کہ چند دنوں میں عرب کی کایا پلٹ دی بڑے بڑے بہادروں کو نیچا دکھا دیا۔ 3۔امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو خطرے کے وقت بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ جرات و دلیری کے ساتھ سخت اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے یہی سبق ملتا ہے۔۔۔ صلی اللہ علیه وسلم ۔۔۔