تشریح:
1۔ (تَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ) سے مراد یہ ہے کہ نماز والا وضو کرتے تھے۔ یہ مطلب نہیں کہ ادائے نماز کے لیے وضو کرتے تھے۔ نیز اس وضو سے مراد لغوی وضو نہیں، بلکہ شرعی وضو ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ وضو، وضوئے شرعی ہے اور اس وضو کی حکمت یہ ہے کہ اس سے حدث میں کمی آجاتی ہے، خصوصاً جواز تفریق غسل کے قول پر یعنی ان حضرات کے قول پر جو غسل میں موالات ضروری خیال نہیں کرتے، لہٰذا اگر نیت غسل کر لے گا۔ تو اعضائے وضو سے تو رفع حدث ہو ہی جائے گا۔ اس کی تائید ابن ابی شیبہ کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے رجال ثقہ ہیں کہ اگر کسی کو رات میں جنابت لاحق ہو اور وہ سونا چاہے تو وضو کر لے، کیونکہ وضو کرنا نصف غسل جنابت ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 113/1) بعض نے یہ حکمت لکھی ہے کہ دو طہارتوں میں سے ایک طہارت کا حصول ہے اور اس بنا پر تیمم بھی وضو کے قائم مقام ہو سکتا ہے۔ بیہقی میں باسناد حسن حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بحالت جنابت جب سونے کا ارادہ فرماتے تو وضو یا تیمم کر لیتے تھے۔ (السنن الکبری للبیهقي:200/1) اگرچہ یہاں اس بات کا احتمال بھی ہے کہ آپ کا یہ تیمم پانی ملنے میں دشواری کی بنا پر ہو۔ بعض حضرات نے اس وضو کی یہ حکمت بیان کی ہے کہ اس سے دوبارہ جماع کرنے یا غسل کرنے کے لیے نشاط پیدا ہو جاتا ہے۔ حافظ ابن دقیق العید ؒ نے امام شافعی ؒ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ تخفیف حدث والا یہ وضو حائضہ کے لیے نہیں ہے، کیونکہ وہ تو غسل بھی کر لے تو بھی اس کا حدث رفع نہیں ہوتا۔ البتہ خون حیض کے منقطع ہونے پر وضو کا استحباب ہوگا کہ اگر وہ انقطاع خون کے بعد سونا چاہے تو وضو کر کے سو جائے، جس طرح جنبی کے لیے حکم ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غسل جنابت فوراً کرنا ضروری نہیں، البتہ نماز کا وقت آنے پر غسل سے حکم میں شدت آجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نیند کے وقت (تنظيف) (صفائی ستھرائی) مطلوب ہے۔ امام ابن جوزی ؒ نے اس کی حکمت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ فرشتے میل کچیل، گندگی اور بدبو سے نفرت کرتے ہیں اور شیاطین ان چیزوں کے قریب ہوتے ہیں اس لیے کم ازکم وضو کا حکم ہے تاکہ فرشتوں کا قرب اور شاطین سے دوری حاصل ہو۔ (فتح الباري:512/1)
2۔ جنبی جنابت کی حالت میں مختلف افعال بجا لاتا ہے ان کے اختلاف کی وجہ سے اس پر مختلف احکام مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً بحالت جنابت چلنا پھرنا یا مبادی غسل کے طور پر کوئی کام کرنا اس قسم کے افعال وضو کے بغیر کرنے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی ان میں کوئی کراہت ہی کا پہلو ہے ان کے بعد کھانے پینے اور سونے کا درجہ ہے ان کے لیے جمہور نے طہارت صغری کو مستحب قراردیا ہے پھر دوسری مرتبہ جماع کرنے کا مرتبہ ہے اس کے لیے حدیث میں وضو کا حکم ہے اور اس کے متعلق امر کا صیغہ آیا ہے جو کہ یہاں وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب وارشاد کے لیے ہے کیونکہ اس کا قرینہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حکمت بایں الفاظ بیان فرمائی ہےکہ اس طرح وضو کرنا دوبارہ جماع کے لیے زیادہ نشاط پیدا کرتا ہے۔ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے انھی الفاظ سے جمہور کے مسلک کے مطابق استحباب ہی پر استدلال کیا ہے
3۔ بہر حال بحالت جنابت نیند سے پہلے وضو کرنا ضروری نہیں، بلکہ مستحب اور افضل ہے اس کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے غسل جنابت سے قبل سونے کے سوال پر فرمایا کہ ہاں سو سکتا ہے مگر وضو کرے اگر چاہے۔ ( صحیح ابن خزیمة: 106/1 ۔ حدیث:211) (إِن شَاءَ) کے الفاظ سے وجوب نہیں بلکہ استحباب ثابت ہو تا ہے۔