تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کی اس پیش گوئی کے مطابق مذکورہ خیر وبرکت صحابہ کرام ؓ تابعین عظام ؒاور تبع تابعین ؒکے حصے میں آئی۔ ان کی دعاؤں کی وجہ سے فتوحات حاصل ہوئیں۔ یہ حضرات اگرچہ دنیاوی معاملات میں کمزور تھے لیکن امور آخرت میں بڑے قوی اور مضبوط تھے۔ 2۔ایک حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’تمام زبانوں سے بہتر میرا زمانہ ہے،پھر صحابہ کرام ؓ اور پھر تابعین عظام ؒ کا۔‘‘ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث 2651) ان خیر و برکت کے زمانوں میں مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان تھے۔ ان کی دعاؤں کو قبول عام حاصل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کی شان ان الفاظ میں بیان کی ہے:’’وہ اپنے ایمان میں پختہ اور تقویٰ میں کامل ہوتے ہیں۔‘‘ (یونس 10/63) 3۔علامہ ابن بطال ؒ کہتے ہیں:کمزور لوگ دعا کرتے وقت اخلاص میں بہت آگے اور عبادت میں ان کا خشوع زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے دل دنیاوی زیب وزینت سے پاک ہوتے ہیں ،اس لیے کمزور لوگوں سے دعا کرانا بہت ہی خیر وبرکت کا باعث ہے۔(فتح الباري:109/6)