تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺنے غزوہ خندق کے موقع پر یہی الفاظ حضرت زبیر ؓ کے لیے استعمال کیے تھے۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم حدیث 3720) شاید حضرت علی ؓ کو اس کا علم نہیں ہوسکا۔ اس کلمے سے مراد انھیں دعا دینا اور اپنی رضا مندی کا اظہار کرنا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے تیر اندازی کی فضیلت ثابت ہوئی، وہ اس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو ان کی تیراندازی پر شاباش دی۔ معلوم ہوا کہ فنون حرب میں مہارت پیداکرنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ہوبڑی فضیلت کا باعث ہیں۔ 3۔عصر حاضر کے جملہ آلات حرب میں مہارت کو اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ پھر تیر انداز نے اپنا تحفظ بھی کرنا ہوتا ہے جو ڈھال کے بغیرممکن نہیں۔ اس بنا پر ڈھال کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔