تشریح:
1۔ اس حدیث میں اہل حبشہ کا ڈھالوں اور برچھیوں سے کرتب دکھانے کا ذکر ہے۔ اس سے امام بخاری ؓنے ڈھال رکھنے کا جواز اور مشروعیت ثابت کی ہے۔ یہ بھی معلوم ہواکہ تاریخی اور جنگی کرتب دیکھنا جائز ہے۔ پردے کے ساتھ عورتیں بھی اس کا نظارہ کرسکتی ہیں اور یہ جنگی کرتب مسجد میں منعقد کیے جاسکتے ہیں۔ 2۔پہلی حدیث سے بعض جدت پسند حضرات نے گانے بجانے کا جواز کشید کیا ہے حالانکہ ایک روایت میں ہے:’’وہ بچیاں معروف معنوں میں گلوکارہ نہیں تھیں۔‘‘ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث 952) اس وضاحت کے بعد گانے بجانے کے جواز پر اصرارکرنا صریح نصوص (قرآن وحدیث کے واضح احکام) سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ 3۔پہلی روایت کے آخر میں ہے:(فَلَمَّا غَفَلَ) ایک نسخے کے مطابق اسماعیل کی روایت میں (اِشتَغَلَ بِعَمَلِ) ہے۔ امام بخاری ؒنے اس دوسرے نسخے کا اعتبار کرتے ہوئے آخر میں وضاحت کی ہے کہ احمد کی روایت میں (عَمَلَ) کی جگہ (غَفَلَ)کے الفاظ ہیں۔ہم نے جس نسخے کو بنیاد بنایا ہے اس میں اسماعیل کی روایت میں بھی (غفل) کے الفاظ ہیں،اس لیے اس کی وضاحت کی ضرورت نہ رہی۔