تشریح:
1۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ پر تلوار سونتنے والے شخص کا نام غورث بن حارث تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4136) 2۔امام بیہقی ؒ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا جواب سن کر اس دیہاتی کے ہاتھ سے تلوار گر گئی رسول اللہ ﷺنے پکڑ کر فرمایا:’’اب مجھ سے تجھے کون بچائے گا۔‘‘ اس نے کہا: مجھے آپ سے اچھے برتاؤ کی امید ہے۔ آپ نے فرمایا:’’اسلام قبول کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا:اسلام تو قبول نہیں کرتا البتہ آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ سے قتال نہیں کروں گا۔ اور نہ آپ سے قتال کرنے والوں کا ساتھ ہی دوں گا۔ تو آپ نے اسے چھوڑ دیا۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا:میں لوگوں میں سے بہتر شخص کے پاس آیا ہوں۔ (دلائل النبوة للبیهقي:456/3) 3۔اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ہتھیاروں سے غافل نہیں ہو نا چاہیے ہاں اگر حالات اتنے سنگین نہ ہوں تو مجاہد اپنا اسلحہ وغیرہ قریب رکھ کر خود آرام کر سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔