تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ دوران مجامعت میں جو رطوبت عورت کی شرمگاہ سے بر آمد ہوتی ہے وہ ناپاک ہے۔ اس کا دھونا ضروری ہے، خواہ وہ عضو مستور پر لگے یا کپڑے پر اس کا دھبہ آئے، چنانچہ حديث میں ہے کہ وہ اپنے عضو مستور کو دھوئےاور دوسری حدیث میں ہے کہ وہ اس مقام کو دھوئے جس سے عورت کو مس کیا تھا۔ اسے دھونے کی بنیاد یہی ہے کہ اسے عورت کی رطوبت لگی ہے۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے پہلے بھی اس نوعیت کا عنوان قائم کیا تھا’’منی کا دھونا اور اس کا کھرچ ڈالنا نیز عورت کی شرمگاہ سے برآمد ہونے والی مذی کو دھونا۔‘‘ یہ تکرار نہیں بلکہ وہاں کتاب الوضوء میں عورت کے مادہ منویہ کے متعلق حکم بیان کرنا مقصود تھا کہ وہ مرد کے مادہ منویہ کی طرح نجس اور پلید ہے، جس کا دھونا ضروری ہےاور اس مقام پر اس رطوبت کا حکم بیان کرنا مقصود ہے، جو مداعبت و ملاعبت یا مجامعت کے دوران میں عورت کی شرمگاہ سے بر آمد ہو۔ یہ بھی نجس ہے، خواہ داخل فرج سے آئے یا خارج فرج میں جمع ہو۔
2۔ امام بخاری ؒ نے دونوں احادیث بیان کرنے کے بعد اپنی طرف سے ایک نوٹ دیا ہے کہ غسل کرنے میں ہی احتیاط ہے۔ ان الفاظ پر صحیح بخاری نے شارحین نے خوب طبع آزمائی کی ہے۔ چنانچہ ابن العربی نے امام بخاری ؒ کے متعلق اپنی قطعی رائے کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے کہ ان کا موقف داؤد ظاہری جیسا ہے، یعنی دوران مجامعت میں اگر انزال نہ ہو تو صرف وضو کرنا ضروری ہے، غسل کرنا ضروری نہیں، البتہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ غسل کر لے۔ داؤد ظاہری کی تو اتنی اہمیت نہیں۔ البتہ امام بخاری ؒ کا معاملہ بہت حیران کن ہے کہ انھوں نے اجماع کے خلاف موقف اختیار کیا ہے، کیونکہ آپ آئمہ دین اور علمائے مسلمین سے ہیں، پھر ابن العربی نے حدیث الباب کو ضعیف قراردینے پر زور دیا ہے، اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ کا تبصرہ درج ذیل ہے: ’’حدیث الباب کی تصنیف کے متعلق ابن العربی کا کلام قابل قبول ہے۔‘‘ پھر ابن العربی امام بخاری ؒ کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ممکن ہے امام بخاری کی (الغسل أحوط) سے مراد احتیاط فی الدین ہے جو اصول کا مشہور باب ہے، یہی بات ان کے فضل و کمال کے مناسب ہے۔ ابن العربی کی یہ توجیہ امام بخاری کی عادت تصرف سے بھی مناسبت رکھتی ہے، کیونکہ انھوں نے ان احادیث پر ترک غسل کے جواز کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا۔ نیز ابن العربی نے مسئلہ زیر بحث کے متعلق جو اختلاف کی نفی کی ہے وہ بھی قابل اعتراض ہے، کیونکہ اختلاف تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں بھی شہرت پا چکا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت سے یہی ثابت ہے کہ ایسے حالات میں غسل واجب نہیں۔ اسی طرح ابن قصار کا یہ دعوی بھی غلط ہے کہ تابعین کے دور میں اختلاف نہیں تھا۔ تابعین میں اس کے متعلق اختلاف تھا، تابعین کے بعد بھی اس موقف سے اختلاف کرنے والوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ البتہ جمہور علماء کا موقف ہے کہ ایسے حالات میں غسل واجب ہے اور یہی درست بات ہے۔ (فتح الباري:1/ 517) محقق عینی نے بھی ابن حجر کی طرح ابن قصار کے دعوی پر نقد کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ تابعین میں اس کے متعلق اختلاف ضرور تھا، اگرچہ قاضی عیاض نے کہا ہے کہ صحابہ کے بعد اعمش تابعی کے علاوہ کسی نے بھی اس مسئلے سے اختلاف نہیں کیا، لیکن ان کے علاوہ بھی ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن ؓ سے غسل نہ کرنا ثابت ہے اور ہشام بن عروہ اور عطاء بھی وجوب غسل کے قائل نہ تھے، اگرچہ حضرت عطا کہا کرتے تھے کہ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے میرا دل بھی غسل کے بغیر مطمئن نہیں ہوتا اور میں عروه وثقی کے تمسک کو ہی عملاً اختیار کرتا ہوں۔ (عمده القاري:93/3)
3۔ علامہ ابن رشد نے اس سلسلے میں اختلاف اور وجہ اختلاف کو بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’اکثر فقہائے امصار اور اہل ظاہر کی ایک جماعت التقائے ختانین سے وجوب غسل کی قائل ہے، جبکہ اہل ظاہر سے کچھ حضرات صرف انزال پر غسل کو واجب کہتے ہیں۔ سبب اختلاف تعارض احادیث صحیحہ ہیں۔ ایک طرف التقائے ختانین سے غسل واجب قراردیے جانے کی حدیث ابی ہریرہ ؓ ہے اور دوسری طرف حدیث عثمان ؓ ہے جس میں غسل کا مدار صرف انزال کو قراردیا گیا ہے۔ اکثریت نے اس دوسری حدیث کو منسوخ قراردیا ہے اور دوسروں نے اس تعارض کے پیش نظر متفق علیہ صورت انزال کو معمول بہ بنالیا ہے۔ منسوخ کہنے والوں نے ابو داود ؒ کی حدیث ابی بن کعب کو بطور دلیل پیش کیاہے کہ حکم عدم غسل آغاز اسلام میں تھا، نیز انھوں نے حدیث ابی ہریرہ ؓ کو قیاس کے لحاظ سے بھی ترجیح دی ہے کہ مجاوزت ختانین سے بالاجماع حد نافذ ہوتی ہے، لہٰذا غسل کا وجوب بھی اسی سے ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ جمہور نے فیصلہ وجوب غسل کو حدیث عائشہ ؓ کی وجہ سے بھی ترجیح دی ہے، جسے مسلم نے روایت کیا ہے، جس میں اگرچہ انزال نہ ہو کے الفاظ ہیں۔‘‘(بدایة المجتهد:95/1۔ 97) اس کے متعلق حضرت عمر ؓ کا فیصلہ اتھارٹی (حرف آخر) کی حیثیت رکھتا ہے، جسے امام طحاوی ؒ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو جمع کر کے اس مسئلے کے متعلق ان کی آراء حاصل کیں۔ کسی نے (اَلمَاءُ مِنَ المَاءِ) والی حدیث پیش کر کے عدم وجوب غسل کی نشاندہی کی، جبکہ دوسروں نے التقائےختانین والی حدیث پیش کر کے وجوب غسل کی رائے کا اظہار کیا۔ حضرت علی ؓ نے کہا کہ اس سلسلے میں ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین سے معلومات لی جائیں کیونکہ وہ اسے زیادہ جانتی ہیں، حضرت عمر ؓ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ ؓ کے پاس آدمی بھیج کر مسئلہ معلوم کرایا تو انھوں نے کہا کہ مجھے اس کے متعلق علم نہیں، پھر حضرت عائشہ ؓ کے پاس آدمی بھیجا تو انھوں نے وہ حدیث پیش کی جس میں ہے کہ جب مرد کے ختنے عورت کے ختنوں سے تجاوز کر جائیں تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فیصلہ دیا کہ آئندہ اگر کسی نے (اَلمَاءُ مِنَ المَاءِ) کے حوالے سے عدم وجوب غسل کا فتوی دیا تو میں اسے عبرتناک سزادوں گا۔ حضرت عمر ؓ نے یہ فیصلہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں دیا اور اس پر کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔ (شرح معاني الآثار للطحاوي:36/1) اس فیصلے کے باوجود حضرت عثمان ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ (اَلمَاءُ مِنَ المَاءِ) کو اختیار کرتے تھے، ان کے اختیار کو حضرت عمر ؓ کے فیصلے سے پہلے ہونے پر محمول کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ان کی طرف اس کی نسبت کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی ؒ نے حضرت عثمان ؓ کو ان لوگوں میں ذکر کیا ہے جو التقاء ختانین سے غسل کو واجب کہتے ہیں، ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ مجاوزت ختان سے غسل واجب ہو جاتا ہے، جیسا کہ انھوں نے سابق عنوان میں اسے بیان فرمایا ہے۔ امام بخاری ؒ کا کسی مسئلے میں رجحان پیش کردہ احادیث سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے حدیث ابی ہریرہ ؓ پیش کر کے اپنا رجحان واضح کر دیا ہے۔ اس حدیث کے آخر میں (الغسل أحوط) اس لیے کہا کہ جب جواز اور وجوب میں اختلاف ہو تو احتیاط کا تقاضا ہے کہ وجوب پر عمل کیا جائے۔ نیز احوط کو استحباب پر منحصر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا اطلاق وجوب پر بھی ہوتا ہے۔ احتیاط پر عمل کرنا کس مقام پر مستحب ہوتا ہے اور کس جگہ پر واجب ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عبادات کے باب میں احتیاط پر عمل واجب ہوتا ہے۔ غسل کا معاملہ بھی عبادات سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے احتیاط پر عمل کرنے کا مفہوم یہ ہوا کہ غسل واجب ہے۔ گویا امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ روایات میں اختلاف ہے اور اس اختلاف کی بنیاد پر کسی کو اشکال پیدا ہو سکتا ہے، مگر اب حضرت عمر ؓ کے تحقیقی فیصلے کے بعد اس کی گنجائش نہیں، ان کے فیصلے نے یہ بات طے کردی ہے کہ غسل کرنا صرف التقائے ختانین سے واجب ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ وجوب عبادات میں عمل پر احتیاط کی بنیاد پر ہے، لہٰذا امام بخاری کو یہ الزام دینا کسی طرح بھی صحیح نہیں کہ آپ نے جمہور اہل علم سے اختلاف کر کے صرف انزال کو غسل کا مدار ٹھہرایا ہے اور التقائےختانین کے وقت صرف احتیاطاًغسل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ خیال کسی انسان کا ذاتی تو ہو سکتا ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے صراحت کے ساتھ کسی مقام پر ایسا نہیں کہا۔ امام بخاری ؒ کی عادت مستمرہ ہے کہ کتاب کے اختتام پر آخرت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ یہاں بھی انھوں نے (ذاك الأخير) کا لفظ استعمال کیا ہے، اس سے موت کی طرف اشارہ ہے، اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ اس لفظ سے اختتام کتاب کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔