تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کےعام نسخوں میں اس حدیث پر کوئی عنوان نہیں، بلکہ اسے سابق عنوان کے تحت ہی درج کیا گیا ہے۔ اس صورت میں چونکہ پہلے بنات آدم پر حیض مقرر کر دینے کا بیان تھا۔ اس حدیث سے مذکورہ مقصد کو واضح کردیا ہے، لیکن ابو ذر ؓ کے نسخے میں مذکورہ عنوان موجود ہے، اس اعتبار سے مقصد یہ ہے کہ حالت حیض میں عورت کو آزاد نہیں چھوڑدیا گیا کہ اس سے امرونہی کا کوئی تعلق ہی نہیں، جیسا کہ یہود و مجوس نے ان ایام میں عورت کو ایک طرف کر رکھاتھا، بتایا گیا ہے کہ ان ایام میں صرف مخصوص عبادات کے ادا کرنے پر پابندی ہے۔ دوران حج میں حائضہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں مناسک حج ادا کر سکتی ہے۔ صرف بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی نہیں کرنی، ان ایام میں مجالس خیر میں شرکت کر سکتی ہے۔ دیگر اسباب خیر بجا لا سکتی ہے۔ اس کے متعلق دیگر تفصیلات کتاب الحج میں بیان ہوں گی۔ إن شاء اللہ۔
2۔ ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ذوالحجہ کی دس تاریخ کو ہمیں گائے کا گوشت پیش کیا گیا۔ میں نے کہا: یہ کہاں سے آیا ہے؟ بتایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے آج اپنی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے، یہ اس کا گوشت ہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1709) اس پر امام بخاری ؒ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے ۔ (باب ذبح الرجل البقر عن نسائه من غير أمرهن) ’’آدمی اپنی بیوی کی طرف سے اس کی اجازت یا علم کے بغیر قربانی کر سکتا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث سے تقریباً پینتیس مسائل کا استباط فرمایا ہے، جن کی ہم آئندہ جستہ جستہ وضاحت کرتے رہیں گے۔ ایک حدیث سے اتنی کثیر تعداد میں مسائل کا استخراج امام بخاری کی قوت استنباط اور دقت نظر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔