تشریح:
1۔ اچھے اور سچے خواب نبوت کا حصہ ہیں۔ وحی الٰہی سے مشرف اور مانوس کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ عرصے تک سچے خواب دکھائے گئے، چنانچہ آپ جو خواب بھی دیکھتے عالم شہادت، یعنی دنیا میں اس کا ظہور بلا کم وکاست ہوجاتا تھا۔ اس طرح آپ کا رابطہ عالمِ مثال سے کرا دیا گیا جو عالم غیب، یعنی منبع وحی سے تعلق کا پیش خیمہ ثابت ہوا، گویا سچے خوابوں کے ذریعے حقائق نبوت سے آپ کو آگہی کرادی گئی۔
2۔ خواب میں ہم مادی امور سے ایک حد تک قطع تعلق ہوجاتے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے خوابوں کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بیداری میں بھی خلوت گزینی محبوب بنادی، چنانچہ غارحرا کاانتخاب اسی روحانی تربیت کانتیجہ تھا۔
3۔ عرصہ وحی 23 برس پر محیط ہے۔ ان میں چھ ماہ سچے خوابوں پر مشتمل ہیں، غالباً اسی لیے حدیث میں سچے خوابوں کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قراردیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 6989) لیکن حصہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوئی آدمی محض رؤیائے صادقہ کے بل بوتے پر نبی بن جائے، جیسے اذان کے کسی کلمے کو بآواز بلند کہنے والے کو مؤذن نہیں کہا جا سکتا اسی طرح ضروری نہیں کہ ہر سچے خواب دیکھنے والا نبی ہو۔ اس کے علاوہ بعض روایات میں وضاحت ہے کہ نبوت ورسالت ختم ہوچکی ہے۔ میرے بعد کوئی نبی یارسول نہیں آئے گا، البتہ مبشرات، یعنی رؤیائے صادقہ باقی ہیں۔ (جامع الترمذي، الرؤیا، حدیث: 2272، ومسند الإمام احمد: 267/3 والخبر صحیح.) اس سے معلوم ہوا کہ نبوت اور چیز ہے اور مبشرات چیزے دیگر است۔
4۔ اس روایت میں کچھ اختصار ہے۔ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں [تَصدُقُ الحَديثَ] کے الفاظ بھی ہیں، یعنی آپ گفتار میں سچے ہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کے متعلق اپنے پاکیزہ خیالات کا اظہار کرکے آپ کے اخلاق فاضلہ کی بہترین تصویر کشی فرمائی ہے۔ یقیناً یہ چھ خصلتیں مکارم اخلاق کی بنیاد ہیں اور ان کا حامل انسان معاشرے میں باعزت اور اس کامستقبل انتہائی تابناک ہوتا ہے۔
5۔ ناموس وحی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین دفعہ بھینچا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھینچنے سے عموماً جذبات برانگیختہ ہوتے اورخفیہ قوتیں جاگ اٹھتی ہیں، غالباً اسی بنا پر آپ کو بھینچا گیا کہ آپ کے قوائے نبوت بیدار ہوجائیں اورآپ پوری یکسوئی سے وحی الٰہی کی سماعت فرمائیں۔ یا اس وجہ سے کہ سینے سے لگا کر بھینچنے سے باہم موانست پیدا ہوتی ہے اوروحشت وبیگانگی کافور ہوجاتی ہے۔
6۔ وحی کے موقوف ہونے کے زمانے میں صرف نزول قرآن موقوف ہواتھا، تاہم جبرئیل علیہ السلام کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رابطہ منقطع نہیں ہواتھا، چنانچہ جب آپ توقف وحی سے پریشان ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام نے بار بار تسلی دی اور آپ کو نبی برحق ہونے کا مژدہ جانفزا سنایا۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 6982)
7۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ انسان جب کسی اہم حادثے سے دو چار ہوتو کسی قابل اعتماد ساتھی، خواہ وہ خاتون خانہ ہی ہو، سے اس کا ذکر کرے، اور مخلص ساتھی کو بھی چاہیے کہ وہ حوصلہ افزائی اور تسلی کا انداز اپنائے تاکہ حادثے سے دوچار شخص کے دل سے خوف اور گھبراہٹ کے اثرات دور ہوجائیں۔ علاوہ ازیں ایسے موقع پر کسی تجربہ کار اور سمجھ دابزرگ سے رابطہ کرنا مفید ہے تاکہ وہ صحیح مشورہ دے سکے۔ (فتح الباري: 1؍25)