قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالِاخْتِلاَفِ فِي الحَرْبِ، وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَلاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ} [الأنفال: 46] قَالَ قَتَادَةُ: الرِّيحُ: الحَرْبُ

3039. حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ البَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يُحَدِّثُ قَالَ: جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ، وَكَانُوا خَمْسِينَ رَجُلًا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ، فَقَالَ: «إِنْ رَأَيْتُمُونَا تَخْطَفُنَا الطَّيْرُ فَلاَ تَبْرَحُوا مَكَانَكُمْ، هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا هَزَمْنَا القَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ، فَلاَ تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ»، فَهَزَمُوهُمْ، قَالَ: فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ، قَدْ بَدَتْ خَلاَخِلُهُنَّ وَأَسْوُقُهُنَّ، رَافِعَاتٍ ثِيَابَهُنَّ، فَقَالَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُبَيْرٍ: الغَنِيمَةَ أَيْ قَوْمِ الغَنِيمَةَ، ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْتَظِرُونَ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَيْرٍ: أَنَسِيتُمْ مَا قَالَ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالُوا: وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّ النَّاسَ، فَلَنُصِيبَنَّ مِنَ الغَنِيمَةِ، فَلَمَّا أَتَوْهُمْ صُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ، فَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ، فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ، فَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا، فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِينَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ أَصَابُوا مِنَ المُشْرِكِينَ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً، سَبْعِينَ أَسِيرًا وَسَبْعِينَ قَتِيلًا، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: أَفِي القَوْمِ مُحَمَّدٌ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجِيبُوهُ، ثُمَّ قَالَ: أَفِي القَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ؟ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: أَفِي القَوْمِ ابْنُ الخَطَّابِ؟ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: أَمَّا هَؤُلاَءِ، فَقَدْ قُتِلُوا، فَمَا مَلَكَ عُمَرُ نَفْسَهُ، فَقَالَ: كَذَبْتَ وَاللَّهِ يَا عَدُوَّ اللَّهِ، إِنَّ الَّذِينَ عَدَدْتَ لَأَحْيَاءٌ كُلُّهُمْ، وَقَدْ بَقِيَ لَكَ مَا يَسُوءُكَ، قَالَ: يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ، وَالحَرْبُ سِجَالٌ، إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ فِي القَوْمِ مُثْلَةً، لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي، ثُمَّ أَخَذَ يَرْتَجِزُ: أُعْلُ هُبَلْ، أُعْلُ هُبَلْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلاَ تُجِيبُوا لَهُ»، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ؟ قَالَ: قُولُوا: اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ ، قَالَ: إِنَّ لَنَا العُزَّى وَلاَ عُزَّى لَكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلاَ تُجِيبُوا لَهُ؟»، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ؟ قَالَ: «قُولُوا اللَّهُ مَوْلاَنَا، وَلاَ مَوْلَى لَكُمْ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ انفال میں فرمایا ” آپس میں پھوٹ نہ پیدا کرو کہ اس سے تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔ قتادہ نے کہا کہ ( آیت میں ) ریح سے مراد لڑائی سے ۔یعنی اختلاف کرنے سے جنگی طاقت تباہ ہو جائے گی اور دشمن تم پر غالب ہو جائیں گے۔

3039.

حضرت براء بن عازب  ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ احد میں حضرت عبداللہ بن جبیر  ؓ کو پچاس تیر اندازوں پر امیر مقرر کیا اور (ان سے) فرمایا: ’’اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمیں نوچ رہے ہیں، تب بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا یہاں تک کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔ اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کفار کو شکست دے دی ہے اور انھیں اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے ، تب بھی اپنی جگہ پر قائم رہنا حتیٰ کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔‘‘ چنانچہ مسلمانوں نے کفار کو شکست سے دوچار کردیا۔ حضرت براء بن عازب  ؓ کابیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے مشرکین کی عورتوں کو دوڑتے ہوئے دیکھا جن کی پنڈلیاں اور پازیب کھل گئے تھے جو اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے بھاگ رہیں تھیں۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن جبیر  ؓ کے ساتھیوں نے کہا: قوم کے لوگو! غنیمت جمع کرو، غنیمت اکھٹی کرو، تمہارے ساتھی غالب آچکے ہیں، اب کس کا انتظار کرتے ہو؟ حضرت عبداللہ بن جبیر نے کہا: کیا تم وہ بات بھول گئے ہو جو رسول اللہ ﷺ نے تم سے کہ تھی؟ انھوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! ہم تو لوگوں کے پا س ضرور جائیں گے تاکہ ہم مال غنیمت حاصل کرسکیں۔ جب یہ لوگ اپنی جگہ چھوڑ کر چلے آئے تو ان کے منہ کافروں نے پھیر دیے اور وہ شکست خوردہ ہوکر بھاگنے لگے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ انھیں پچھلی طرف سے بلارہے تھے، جب نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ آدمیوں کے علاوہ اور کوئی نہ رہا تو کافروں نے ہمارے ستر آدمیوں شہید کردیے۔ قبل ازیں نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب نے بدر کے دن ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیاتھا: ستر کو قیدی بنایا اور ستر کو واصل جہنم کیا۔ پھر ابو سفیان نے تین مرتبہ یہ آواز دی: کیا محمد ( ﷺ ) لوگوں میں زندہ موجود ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو جواب دینے سے منع کردیا۔ اس کے بعد، پھر ابوسفیان نے تین مرتبہ کہا: ان لوگوں میں ابو قحافہ کے بیٹے بھی ہیں؟ پھر تین مرتبہ آواز دی: کیا ان لوگوں میں خطاب کے بیٹے ہیں؟ اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹا اور کہا: یہ تینوں حضرات قتل ہوچکے ہیں۔ اس وقت حضرت عمر  ؓ بے تاب ہوکر کہنے لگے: اللہ کی قسم! تو نے غلط کہا ہے، اے اللہ کے دشمن! یہ سب، جن کا تونے نام لیا زندہ ہیں اور ابھی تیرا بُرا دن آنے والا ہے۔ ابو سفیان نے کہا: آج بدر کے دن کا بدلہ ہوگیا، یقیناً لڑائی تو ڈول کی طرح ہے۔ بلاشبہ تمہارے کچھ مردوں کے ناک، کان کاٹے گئے ہیں، البتہ میں نے ان کا حکم نہیں دیا لیکن میں اسے بُرا بھی نہیں سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد ابو سفیان رجز پڑھنے لگا: ’’اونچا ہوجا اے ہبل۔۔۔ تو اونچا ہوجا اے ہبل‘‘ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا: ’’تم اسے جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا، اللہ کے رسول ﷺ !کیا جواب دیں؟ آپ نے فرمایا : ’’تم یوں کہو:سب سے اونچا ہے وہ اللہ سب سے رہے گا وہ اجل‘‘ پھر ابو سفیان نے یہ مصرعہ پڑھا: ’’ہمارا عزیٰ ہے تمہارے پا س عزیٰ کہاں‘‘ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے جواب نہیں دیتے ہو؟‘‘ صحابہ کرام  ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا جواب دیں؟ تو آپ نے فرمایا: ’’یوں کہو:ہمارا مولیٰ ہے اللہ تمہارا مولیٰ ہے کہاں‘‘