1۔حضرت محمد حنفیہ کے پاس کسی شخص نے حضرت عثمان ؓ کو برُا بھلا کہا تو آپ نے اسے خاموش کرادیا۔ لوگوں نے کہا: آپ کے والد گرامی بھی توحضرت عثمان ؓ کو بُرا بھلا کہتے تھے۔ تب حضرت ابن حنفیہ نے یہ قصہ بیان فرمایا: اگرحضرت علی ؓنے انھیں بُرا بھلاکہنا ہوتا تو اس موقع پر انھیں یہ کام کرناچاہیے تھا۔ حضرت عثمان ؓنے وہ صحیفہ اس لیے واپس کردیا کہ آپ اس کے مندرجات سے پہلے ہی واقف تھے اور اس کے مطابق اپنے کارندوں سے عمل کروارہے تھے۔ (فتح الباري:258/6) 2۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا لکھوایا ہوا صدقات سے متعلق یہ صحیفہ حضرت علی ؓکے پاس رہا اور انھوں نے اس سے کام لیا۔ ابن حنفیہ ؒ حضرت علی ؓ کے بیٹے ہیں۔ حنفیہ ان کی والدہ ہیں جن کا نام خولہ بنت جعفر ہے اور یمامہ کے قیدیوں میں قیدی بن کر آئی تھیں۔ (عمدةالقاري:442/10)
ضروری تنبیہہ:۔ امام بخاری ؒ نے رسول اللہ ﷺ کی زرہ، عصا اور بالوں کے متعلق کوئی حدیث بیان نہیں کی، حالانکہ قائم کردہ عنوان میں ان کا ذکر ہے اور انھیں دیگرمقامات پر بیان کیا ہے۔ شاید آپ نے ان کی طرف اشارہ کیا ہوان کی تفصیل درج ذیل ہے:©۔ زرہ شریف:۔ حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے چند وسق جو ادھار لیے تو آپ نے اس کے عوض اپنی زرہ گروی رکھی۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2068) رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں خریدے ہوئے جو کی قیمت ادا کرکے، رہن شدہ زرہ نہ لے سکے، حضرت ابوبکر ؓنے اپنے دور خلافت میں اس کی قیمت ادا کی اور یہودی سے زرہ لے کر حضرت علی ؓکے حوالے کی۔ ©۔عصا مبارک:۔ حضرت ابن عباس ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک نوک دار لاٹھی تھی جس سے آپ حجر اسودکا استلام کرتے تھے (صحیح البخاري الحج، حدیث:1607) حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک جنازے کے ہمراہ بقیع تشریف لے گئے، آپ کے پاس چھڑی تھی جس سے آپ زمین پر لکیریں لگانے لگے پھر آپ نے ایک حدیث بیان فرمائی۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4948) موئے مبارک:۔حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے (حج کے موقع پر) اپنا سرمنڈوایا تو موئے مبارک حضرت ابوطلحہ ؓنے حاصل کیے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:171) ان بالوں میں سے کچھ بال ابن سیرین کے پاس تھے جو انھوں نےحضرت انس ؓسے حاصل کیے تھے۔ حضرت عبیدہ بھی یہ خواہش رکھتے تھے کہ کاش ان کے پاس بھی کوئی بال ہو۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:170) حضرت عروہ بن مسعود ؓ کابیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا موئے مبارک کبھی گرتا تو صحابہ کرام ؓ اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ (مسند أحمد:324/4) کتب احادیث میں صرف خواتین کا ذکر ملتا ہے جنھوں نے خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک محفوظ رکھنے کااہتمام فرمایا، ان میں سے ایک حضرت ام سلمہ ؓ اور دوسری حضرت ام سلیم ؓہیں۔ حضرت عبداللہ بن موہب کا بیان ہے کہ مجھے حضرت ام سلمہ ؓنے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک دکھائے تھے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:588) حضرت عبداللہ بن موہب مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے اہل خانہ نے پانی کا پیالہ دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓکے پاس بھیجا کیونکہ ان کے پاس خوبصورت چاندی کی ڈبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک محفوظ تھے۔ آپ پانی میں انھیں ڈال کر ہلاتیں، پھر وہ پانی نظربد یا بخار والے مریض کو پلایا جاتا۔ میں نے اس وقت ڈبیہ میں سرخ رنگ کے موئے مبارک دیکھے تھے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5896) اس طرح حضرت ام سلیم ؓنے آپ کے موئے مبارک محفوظ رکھنے کا اہتمام فرمایا، یہ بال آپ کے شوہر نامدار ابوطلحہ ؓنے دیے تھے۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کے پاس بھی موئے مبارک تھے جو انھیں فضل بن ربیع کے کسی لڑکے نے دیے تھے۔ آپ ان بالوں کو بوسہ دیتے، آنکھوں پر لگاتے اور پانی میں بھگو کر شفا کے طور پر اس پانی کو نوش کرتے۔ جن دنوں آپ پر آزمائش آئی اس وقت وہ آپ کی آستین میں رکھے ہوئے تھے۔ کچھ لوگوں نے انھیں نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ (سیر أعلام النبلاء:250/11) انھوں نے وصیت کردی تھی کہ قبر میں ان کو بھی ساتھ ہی دفن کردیاجائے۔ (سیر أعلام النبلاء:337/11) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے آثار شریفہ سے دوشرائط کے ساتھ تبرک لیا جاسکتا ہے۔ بشرط یہ کہ وہ صحیح ہوں: 1۔ تبرک لینے والا شرعی عقیدے اور اچھے کردار کا حامل ہو کیونکہ جو سچا مسلمان ہی نہیں اسے اللہ تعالیٰ اس قسم کے تبرکات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ 2۔ جو شخص تبرک حاصل کرنا چاہتا ہو اسے رسول اللہ ﷺ کے آثار شریفہ سے کوئی چیز حاصل ہوا اور پھر وہ استعمال بھی محض کرے محض دیکھ لینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا جیسا کہ قبل ازیں اس کی تفصیل بیان ہوچکی ہے۔ آخر میں ہم اس امر کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے اگرچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ کے آثار شریفہ سے تبرک حاصل کیا۔ آپ کے لعاب دہن کو اپنے چہروں اور جسموں پر ملا۔رسول اللہ ﷺ نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ ایسا کرنا جنگی حالات کے پیش نظر ضروری بھی تھا تاکہ کفار قریش کو ڈرایا جائے اور ان کے سامنے اس امر کا اظہار کیاجائے کہ مسلمانوں کا اپنے رہبر ورہنما سے تعلق کس قدر مضبوط ہے۔ انھیں اپنے حبیب رسول مقبول ﷺ سے کس قدر والہانہ عقیدت ہے۔ آپ کی محبت میں کس قدر فنا ہیں اور کس کس انداز سے آپ کی تعظیم بجالاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ رسول اللہ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے بعد بڑے حکیمانہ انداز اور لطیف اسلوب میں مسلمانوں کی توجہ اعمال صالحہ کی طرف مبذول کرنے کی کوشش فرمائی، جو تبرکات کو اختیار کرنے سے کہیں بہتر ہے۔ مندرجہ ذیل حدیث اس سلسلے میں ہماری واضح رہنمائی کرتی ہے۔ حضرت عبدالرحمان بن ابوقراد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن وضو فرمایا، آپ کے صحابہ کرام ؓ نے آپ کے وضو کے پانی کو اپنے جسموں پر ملنا شروع کردیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم ایساکیوں کرتے ہو؟‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی:ہم اللہ اور اس کے ر سول کی محبت کے پیش نظر ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:’’جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے یااللہ اور اس کا رسول ﷺ اس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ بات کرتے ہوئے سچ بولے، اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اسے ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں سے حسن سلوک کرے۔‘‘ (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث:2998)مختصر یہ ہے کہ ہمارے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا اصل تبرک یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں آپ کےذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے، اس پر عمل کیاجائے اورآپ کی صورت وسیرت کی اتباع کی جائے تو ہم اس کے نتیجے میں دنیا وآخرت کی خیروبرکات سے مشرف ہوں گے جیساکہ حافظ ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں:اہل مدینہ کو رسول اللہ ﷺ کی برکت کی وجہ سے دنیا و آخرت کی سعادت سے بہرہ ور کیاگیا ہر مومن جسے اس برکت کی بدولت ایمان نصیب ہوا اسے اللہ کے ہاں اتنی بھلائیوں سے نوازا جائے گا جس کی قدروقیمت تو اللہ ہی جانتا ہے۔ (مجموع الفتاویٰ:113/11) اس موضوع پر ہم نے اپنی تالیف "فتاویٰ اصحاب الحدیث" میں تفصیل سے لکھا ہے۔ (فتاویٰ أصحاب الحدیث:42/1، 48)قارئین کرام اس کا ضرور مطالعہ کریں۔ رسول اللہ ﷺ کےآثار شریفہ کے متعلق اس قدر تفصیل شاید کسی اور مقام پر نہ مل سکے۔ واللہ أعلم۔