تشریح:
1۔ قرآن مجید میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے علاوہ خمس کے چار مصرف بیان ہوئے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار، یتیم مساکین اور مسافر حضرات۔ یہ خمس کے حقدار نہیں بلکہ مصارف ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے لیے یہ ضروری نہیں تھا کہ خمس کو ان تمام مصارف میں خرچ کرتے بلکہ اپنی صوابدید کے مطابق جہاں چاہتے خرچ کرنے کے مجازتھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت فاطمہ ؓ کو خدمت گزار عطا نہیں فرمایا، حالانکہ وہ ضرورت مند تھیں اورقرابت دار بھی تھیں۔ اگرقرابت داری استحقاق کا باعث ہوتی تو رسول اللہ ﷺ انھیں ضرور خادم دیتے۔ اگرچہ اس حدیث میں اہل صفہ کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؒنے اس حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’اللہ کی قسم! میں ایسا نہیں کرسکتا کہ تمھیں دوں اور اہل صفہ کو نظر انداز کردوں جبکہ ان کے پیٹ بھوک کی وجہ سے کمر سے لگے ہوئے ہیں اور میرے پاس ان پر خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ میں ان قیدیوں کو فروخت کرکے ان سے حاصل ہونے والی رقم اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔‘‘ (مسندأحمد:106/1) 2۔ بہرحال مال غنیمت کے چارحصے تو مجاہدین کے لیے ہیں اور ایک حصہ امام کی صوابدید پر موقوف ہے، وہ اسے جہاں چاہے جیسے خرچ کرسکتا ہے۔