تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان دراصل حضرت عمر ؓ کا ایک قول ہے جسے مصنف عبدالرزاق میں صحیح سند سے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نےحضرت عمار ؓ کو لکھا کہ غنیمت کا حقدار وہ مجاہد ہے جو میدان جنگ میں شریک ہو۔ (المصنف لعبدالرزاق:302/5) 2۔ یہ حدیث بھی عنوان کے مطابق ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے خیبر کی فتح ہوئی زمین مجاہدین میں تقسیم کردی تھی، البتہ حضرت عمر ؓ نے ایک خارجی مصلحت کی بنا پر مفتوحہ زمینوں اور علاقوں کوتقسیم کرنے کی بجائے انھیں وقف کردیا اور ان سے حاصل ہونے والی پیداوار کو مسلمانوں کی ضروریات میں صرف کرتے تھے۔ (فتح الباري:270/6) شارح بخاری ابن منیر لکھتے ہیں:امام بخاری ؒ کے نزدیک فتح کی گئی زمینیں تقسیم کردینا ہی مناسب ہے کیونکہ بعد میں آنے والے مسلمان میدان جنگ میں شریک نہیں تھے کہ ان کےلیے اراضی وقف کردی جائے۔ ہمارا رجحان یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی قول:غنیمت اس کا حق ہے جو لڑائی میں حاضر ہوا، اور عمل:انھوں نے مفتوحہ علاقے مجاہدین میں تقسیم نہیں کیے، میں تطبیق اس طرح دینا چاہتے ہیں کہ زمین وقف کردی جائے اور باقی مال غنیمت لڑائی میں شریک مجاہدین میں تقسیم کردیا جائے۔ (فتح الباري:271/6) دراصل حضرت عمر ؓ کے عملی موقف کی بنیاد سورہ حشر کی وہ آیات ہیں جن میں اموال فے کے حقداروں کا بیان ہے۔ ان میں سے پہلے محتاج مہاجرین کاذکر کیا، پھر ایثار کرنے والے انصار کا، تیسرے نمبر پر بعدمیں آنے والے اہل اسلام کا۔ (الحشر :10،8) اگروہ مفتوحہ بستی کی زمینیں فاتحین میں تقسیم کردی جاتیں تو بعد میں آنے والے مسلمانوں کے لیے کچھ باقی نہ رہتا جبکہ قرآن کریم نے انھیں بھی حقدار ٹھہرایا ہے، اس لیے حضرت عمر ؓنے مفتوحہ اراضی تقسیم کرنے کی بجائے انھیں وقف کردی۔ واللہ أعلم۔