تشریح:
1۔ جنگ جمل حضرت علی ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے درمیان 36ہجری میں ہوئی۔ چونکہ سیدہ عائشہ ؓ اونٹ پر سوارتھیں، اس لیے اس کا نام "جمل" رکھاگیا۔ لڑائی کی وجہ حضرت عثمان ؓ کا خون ناحق تھا۔ حضرت عائشہ ؓ قاتلین عثمان جو حضرت علی ؓ کے کیمپ میں تھے، ان سے قصاص کی طلب گار تھیں جبکہ حضرت علی ؓ حالات کے سازگار ہونے تک اس معاملے کو ملتوی کیے جارہے تھے۔ یہی تنازع تھا جو افہام وتفہیم سے حل نہ ہوسکا، بالآخر نوبت جنگ تک پہنچی۔ امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ غازی اسلام کے لیے زندگی اور موت کے بعد اس کے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے، چنانچہ حضرت زبیر ؓکسی سرکاری عہدے پر تعینات نہ تھے، صرف جہاد میں شرکت کرتے تھے، مال غنیمت میں سے انھیں جو کچھ ملا اس میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کی برکت سے اس قدر اضافہ فرمایا کہ قرض اور وصیت کی ادائیگی کے بعد چار بیویوں میں سے ہر بیوی کو بارہ بارہ لاکھ ملا۔ امام بخاری ؒ کا مدعا تو اسی قدر ہےلیکن اس جائیداد کی مالیت میں کچھ اشکال ہے جسے ہم بیان کرتے ہیں:اشکال یہ ہے کہ جب ہم ایک بیوی کو ملنے والے حصے کو بنیاد بناتےہیں تو ادائیگی قرض اور نفاذ وصیت کے بعد آپ کے ترکے کی مالیت پانچ کروڑ اٹھانوے لاکھ بنتی ہے جبکہ امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں مجموعی جائیداد کی مالیت پانچ کروڑ دولاکھ بنائی ہے، یعنی اصل حساب سے چھیانوے لاکھ کم ہے۔ اس اشکال کو حل کرنے سے پہلے ہم ایک بنیادی بات عرض کرتے ہیں کہ عرب کے ہاں گنتی کے بنیادی طور پر تین قطعات ہیں:پہلا قطعہ چار اجزاء پر مشتمل ہے:آحاد (اکائیاں)عشرات (دہائیاں) مئات (سیکڑے) اور اُلوف (ہزار)۔ دوسرا قطعہ تین اجزا پر مشتمل ہے:عشرۃ آلاف (دس ہزار) ، مائۃ الف ( ایک لاکھ) اور الف الف (دس لاکھ)۔ اس قطعے کے مطابق الفا الف (بیس لاکھ) اور ثلاثة آلاف ألف (تیس لاکھ) وغیرہ تیسرا قطعہ بھی تین اجزاء پر مشتمل ہے۔ عشرة آلاف ألف (کروڑ) مائة ألف ألف (دس کروڑ) اورالف، الف الف (ارب) اس طرح عشرون الف الف (دوکروڑ) ثلاثون الف الف (تین کروڑ) جائیداد کا تفصیلی حساب کچھ اس طرح ہے:واضح رہے کہ حضرت زبیر ؓ کے ورثاء نے نوبیٹے، نوبیٹیاں اور چار بیویاں تھیں۔ آپ کا کل سرمایہ یہ تھا:غابہ میں کچھ زمین اورگیارہ عدد مکانات تھے۔ اورآپ کے ذمے کل قرض بائیس لاکھ تھا۔ حضرت زبیر ؓ نے اپنے لخت جگر عبداللہ کو وصیت کی کہ پہلے قرض ادا کرنا پھر باقی ماندہ ترکے کے تین حصے کرنا۔ ایک حصہ میرے پوتوں، فقراء اورمساکین کے لیے اور باقی دوحصے تمام ورثاء میں تقسیم کردینا۔ چونکہ ان کے ذمے بائیس لاکھ قرض تھا جن میں سے چار لاکھ تو عبداللہ بن جعفر ؓ کے تھے۔ انھیں غابہ کی کچھ زمین چار لاکھ کے عوض دے دی اور باقی زمین بھی فروخت ہوگئی۔ غابہ کی کل زمین سولہ لاکھ میں فروخت ہوئی جو انھوں نے ایک لاکھ سترہزارمیں خریدی تھی۔ اس طرح انھیں چودہ لاکھ تیس ہزار نفع ہوا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے قرض اداکرنے کے لیے باقی جائیداد بھی فروخت کی اور کل قرض ادا ہوا۔ اس کے بعد باقی ماندہ حال میں سے وصیت کا ایک تہائی الگ کیا۔ باقی دوتہائی تقسیم کیا تو ہر بیوی کو بارہ لاکھ ملا۔ بیویاں چارتھیں۔ اولاد کی موجودگی میں بیویوں کو ترکے کا آٹھواں حصہ ملتا ہے۔ بارہ لاکھ کو چار سے ضرب دیں تو کل آٹھواں حصہ اڑتالیس لاکھ بنتا ہے۔اس آٹھویں حصے کو آٹھ سے ضرب دی تو قابل تقسیم جائیداد تین کروڑ چوراسی لاکھ بنتی ہے۔ یہ کل ترکے کے دوحصے ہیں کیونکہ ایک حصہ بطور وصیت پہلے ہی الگ کرلیاگیا تھا۔ اب کل ترکہ معلوم کرنے کے لیے وصیت والا ایک تہائی جو باقی ماندہ تعرکے کا نصف ہے، یعنی ایک کروڑ بانوے لاکھ، اس رقم میں جمع کیا تو مجموعہ پانچ کروڑچھہتر لاکھ ہوگیا۔ یہ ترکہ فرض کے علاوہ ہے۔ اس میں بائیس لاکھ قرض والا جمع کریں توکل ترکہ پانچ کروڑ اٹھانوے لاکھ بنتا ہے۔ صورت حساب کچھ اس طرح ہے:(الف) ثمن ایک بٹا آٹھ کا چوتھا حصہ بارہ لاکھ جو چار بیویوں میں سے ہر ایک بیوی کو ملا۔ (ب)۔ اسے چار سے ضرب دی تو اڑتالیس لاکھ ہوا جو کامل ثمن ایک بٹا آٹھ ہے۔ (ج)۔ بیویوں کے حصے کو آٹھ سے ضرب دی تو تین کروڑ چوراسی لاکھ ہوا۔ یہ کل جائیداد کے دوحصے ہیں۔ (د)۔ وصیت کا ایک تہائی ایک کروڑ بانوے لاکھ ہے۔ اس حصے کو جمع کریں تو میزان پانچ کروڑچھہتر لاکھ بنتی ہے۔ (ر) قرضے کی رقم بائیس لاکھ ہے اسے مذکورہ بالارقم میں جمع کریں تو کل مالیت پانچ کروڑ اٹھانوے لاکھ بنتی ہے جبکہ امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخرمیں میراث، وصیت اور قرض ملا کر کل جائیداد صرف پانچ کروڑ دولاکھ ظاہر کی ہے۔ امام بخاری کے حساب میں اور ہمارے تفصیلی حساب میں چھیانوے لاکھ کافرق ہے۔ اس فرق کا کیا حل ہے؟ اشکال کی یہی صورت ہے۔ اسے حل کرنے کے لیے حافظ ابن حجر ؒ نے درج ذیل صورت پیش کی ہے جو قرین قیاس معلوم ہوتی ہے:ہمارے رجحان کے مطابق اس فرق کا یہ معقول حل ہے جسے ہم بیان کرتے ہیں۔ حضرت زبیر ؓ کی وفات کے وقت متروکہ جائیداد کی مالیت پانچ کروڑ دو لاکھ تھی، لیکن حضرت ابن زبیر ؓ عرصہ چار سال تک احتیاط کے پیش نظر موسم حج میں قرضہ جات کااعلان کرتے رہے۔ اس دوران میں مالیت میں اراضی اور مکانات کی آمدنی اور پیداوار سے اضافہ ہوتا رہا حتی کہ چار سال کے بعد چھیانوے لاکھ کا اضافہ ہوکر کل جائیداد کی مجموعی قیمت پانچ کروڑ اٹھانوے لاکھ ہوگئی۔ ہمارے نزدیک یہ توجیہ راجح اور عمدہ ہے کیونکہ اس سے تمام الفاظ حدیث اپنے اپنے ظاہر اور حقیقی مفہوم پر باقی رہتے ہیں، نیز امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے بھی عین مطابق ہے کہ غازی اسلام کے لیے زندگی اور موت کے بعد اس کے مال میں برکت پیداہوتی ہے۔ واللہ المستعان۔ (فتح الباري:281/6)