تشریح:
1۔ حیض کے خون میں زہریلا مادہ ہوتا ہے جس کے اخراج سے مخصوص محل کی جلد سکڑ جاتی ہے اوراس کی رنگت بھی بدل جاتی ہے۔ اس کی سکڑن کے ازالے ورتازگی کے اعادے کے لیے خوشبو کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت قسط ہندی کے استعمال سے پوری ہوجاتی ہے۔ غسل حیض کے بعد اس خوشبو کے استعمال کی اس حد تک تاکید ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اسے چار ماہ دس دن تک زینت اور خوشبو استعمال کرنے کی اجازت نہیں، اسے بھی غسل حیض کے بعد خوشبو استعمال کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ خوشبو کااستعمال اس لیے بھی ضروری ہے کہ نفرت وکراہت دور ہوجائے اور آئندہ نماز وغیرہ کے وقت خون حیض کا تصور تکدر طبع کا باعث نہ ہو، لیکن ہمارے برصغیر (پاک وہند) کی بیشتر عورتیں اس امرنبوی کو نہ معلوم کیوں نظر انداز کر دیتی ہیں۔ 2۔ عصب اس یمنی کپڑے کو کہتے ہیں جس کے سوت میں پہلے گرہیں باندھ لی جاتی تھیں، پھر اسی حالت میں رنگنے کے بعد اس سے کپڑا بنادیاجاتاتھا، جہاں جہاں گرہیں ہوتیں وہاں رنگ نہیں چڑھتا تھا، بلکہ سادہ رہ جاتاتھا، غالباً اسی وجہ سے بعض حضرات نے اسے دھاری دار چادر سے تعبیر کیا ہے۔ حدیث نبوی کا مقصد حالت ِ عدت میں ان تمام کپڑوں کےپہننے کی ممانعت ہے جو بغرض زینت رنگے جاتے ہیں۔ ہاں ثوب عصب کی اجازت اس لیے دی کہ اس دور میں یہی عام لباس تھا۔ اگر یہی دھاری دار یمنی کپڑا اعلیٰ قسم کا باعث زینت ہوتو اسے بھی پہننے کی اجازت نہیں، جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ حالت سوگ میں عورت نہ رنگین کپڑا پہنے، نہ ثوب عصب پہنے اور نہ سرمہ لگائے۔ (سنن النسائي، الطلاق، حدیث:3564) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ثوب عصب اگرباعث زینت ہوتواس کا زیب تن کرنا بھی سوگ والی کے لیے ممنوع ہوگا۔ 3۔ زمانہ جاہلیت میں عدت گزارنے کا یہ طریقہ تھا کہ عورت کو نہایت تنگ وتاریک کوٹھری میں سب سے الگ تھلگ ایک سال کے لیے مقید کردیا جاتا۔ اس دوران میں اسے غسل کی بھی اجازت نہ تھی۔ ایک سال کے بعد نہایت قبیح شکل وصورت کے ساتھ نکلتی تھی، پھر کسی پرندے کو عورت کے خاص خاص حصوں کے ساتھ مس کیا جاتا۔ اکثرحالات میں تعفن کی تاب نہ لاکر پرندہ مرجاتا، پھربکری کی مینگنی عورت کے ہاتھ میں دے دیتے تھے، جسے وہ اپنی پشت کے پیچھے پھینک دیتی، گویا اس نے عدت کو پھینک دیا ہے۔ اسلام نے ان تمام رسوم کو خاتمہ کرکے نہایت معقول و مہذب شکل میں عدتِ سوگ کو باقی رکھا۔ 4۔ امام بخاری ؒ نے ہشام کی روایت کو آگے موصولاً بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الطلاق، حدیث:5343) اس روایت میں وضاحت ہے کہ سوگ والی عورت جب حیض سے فارغ ہوتو نہانے کے بعد اسے کچھ کست اور اظفار کو استعمال کرناچاہیے۔ کست، قسط ہندی کو کہتے ہیں جسے عود یا لوبان بھی کہاجاتا ہے۔ اور اظفار ایک خوشبو دار لکڑی ہے جو ناخن کے مشابہ ہوتی ہے یا اس لکڑی کوناخن کی طرح کاٹ کرخوشبو میں استعمال کیاجاتا ہے اور اسے أظفارالطیب بھی کہتے ہیں۔ بعض حضرات نے اسے ظفار پڑھاہے۔ اسے مراد یمن کا شہر ہے۔ وہاں سے عود ہندی کو درآمد کرکے عرب ممالک میں برآمد کیا جاتا تھا۔خلاصہ یہ ہے کہ غسل کے وقت ان خوشبوؤں میں سے کسی ایک کو استعمال کرے تاکہ بدبو کا ازالہ ہوجائے۔ (فتح الباري:537/1)