قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ (بَابٌ: وَمِنَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِينَ مَا سَأَلَ هَوَازِنُ النَّبِيَّ ﷺ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: مَا سَأَلَ هَوَازِنُ النَّبِيَّ ﷺ بِرَضَاعِهِ فِيهِمْ [ص:89] فَتَحَلَّلَ مِنَ المُسْلِمِينَ وَمَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَعِدُ النَّاسَ أَنْ يُعْطِيَهُمْ مِنَ الفَيْءِ وَالأَنْفَالِ مِنَ الخُمُسِ وَمَا أَعْطَى الأَنْصَارَ وَمَا أَعْطَى جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ تَمْرَ خَيْبَرَ

3137. حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ قَدْ جَاءَنِي مَالُ البَحْرَيْنِ لَقَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا»، فَلَمْ يَجِئْ حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاءَ مَالُ البَحْرَيْنِ، أَمَرَ أَبُو بَكْرٍ مُنَادِيًا فَنَادَى: مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ أَوْ عِدَةٌ فَلْيَأْتِنَا، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِي كَذَا وَكَذَا، فَحَثَا لِي ثَلاَثًا، - وَجَعَلَ سُفْيَانُ يَحْثُو بِكَفَّيْهِ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ لَنَا: هَكَذَا قَالَ لَنَا ابْنُ المُنْكَدِرِ -، وَقَالَ مَرَّةً فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ، فَسَأَلْتُ، فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ الثَّالِثَةَ فَقُلْتُ: سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، فَإِمَّا أَنْ تُعْطِيَنِي، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّي قَالَ: قُلْتَ: تَبْخَلُ عَنِّي؟ مَا مَنَعْتُكَ مِنْ مَرَّةٍ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعْطِيَكَ، قَالَ سُفْيَانُ، وَحَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَابِرٍ، فَحَثَا لِي حَثْيَةً وَقَالَ: عُدَّهَا فَوَجَدْتُهَا خَمْسَ مِائَةٍ، قَالَ: فَخُذْ مِثْلَهَا مَرَّتَيْنِ، وَقَالَ يَعْنِي ابْنَ المُنْكَدِرِ: وَأَيُّ دَاءٍ أَدْوَأُ مِنَ البُخْلِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

وہ واقعہ ہے کہ ہوازن کی قوم نے اپنے دودھ ناطے کی وجہ سے جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھا ‘ آپ سے درخواست کی ‘ ان کے مال قیدی واپس ہوں تو آپ نے لوگوں سے معاف کرایا کہ اپنا حق چھوڑدو اور یہ بھی دلیل ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کو اس مال میں سے دینے کا وعدہ کرتے جو بلا جنگ ہاتھ آیا تھا اور خمس میں سے انعام دینے کا اور یہ بھی دلیل ہے کہ آپ نے خمس میں سے انصار کو دیا اور جابر ؓ کو خیبر کی کھجور دی ۔

3137.

حضرت جابر   ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر ہمارے پاس بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا دوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ کی وفات تک وہ مال نہ آیا۔ بعد ازاں جب وہاں سے مال آیا تو حضرت ابو بکرؓ نے منادی کوحکم دیا کہ وہ اعلان کردے: جس شخص کا رسول اللہ ﷺ پر قرض ہو یا آپ نے کسی سے وعدہ کیا ہو وہ ہمارے پاس آئے ہم اسے مال ادا کرٰیں گے۔ میں نے عرض کیا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے اتنا اتنا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ حضرت ابو بکر   ؓ نے مجھے تین لپ بھر کردیں۔ (راوی حدیث) حضرت سفیان نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو جمع کرکے لپ بھرے پھر فرمایا کہ اس طرح دیا۔ ابن منکدر اپنی سند کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر  ؓ نے فرمایا کہ میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس آیا اور ان سے طلب کیا تو آپ نے دیا۔ پھر آکر سوال کیا تو انھوں نے پھر کچھ نہ دیا۔ پھر درخواست کی لیکن انھوں نے پھر بھی کچھ نہ دیا۔ (بالآخر میں نے کہا) اب آپ مجھے کچھ دیں یا آپ میرے متعلق بخل سے کام لیتے ہیں۔ حضرت ابو بکر   ؓنے فرمایا کہ تم مجھ پر بخل کا الزام دھرتے ہو، حالانکہ میں نے ایک بار بھی انکار نہیں کیا۔ میرے دل میں یہ بات تھی کہ تمھیں کبھی نہ کبھی دینا ضرور ہے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت جابر    ؓ نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر  ؓنے مجھے ایک لپ بھر کردی اور فرمایا کہ اسے شمار کرو۔ میں نے شمار کیا تو پانچ سو کی تعداد تھی۔ اس کے بعد فرمایا: اتنی ہی مقدار دو مرتبہ اور لے لو۔ ابن منکدر ایک روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ابو بکرؓ نے یہ بھی فرمایا تھا: بخل سے زیادہ سنگین بیماری اور کیا ہو سکتی ہے۔