باب : نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ تمہارے لئے غنیمت کے مال حلال کئے گئے
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: The statement of the Prophet saws: "Booty has been made legal for you Muslims.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جس میں سے یہ ( خیبر کی غنیمت ) پہلے ہی دے دی ہے ۔ ‘ ‘ تو یہ غنیمت کا مال ( قرآن کی روسے ) سب لوگوں کا حق ہے مگر آنحضرت ﷺنے بیان فرما دیا کہ کون کون اس کے مستحق ہیں ۔ تشریح : یعنی قرآن مجمل ہے اس کی روسے تو ہر مال غنیمت میں ساری دنیا کے مسلمانوں کا حصہ ہوگا۔ مگر حدیث شریف سے اس کی تشریح ہوگئی کہ ہر لوٹ کا مال ان لوگوں کا حق ہوگا جو لڑے اور لوٹ حاصل کی‘ اس میں سے پانچواں حصہ حاکم وقت مسلمانوں کے عمومی مصالح کے لئے نکال لے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس تقریر سے ان لوگوں کا ردہوا جو صرف قرآن شریف کو عمل کرنے کے لئے کافی سمجھتے ہیں کہ حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے لوگ قرآن مجید کے دوست نہیں کہے جاسکتے بلکہ ان کو قرآن مجید کا دشمن نمبر اول سمجھنا چاہئے جس میں صاف کہا گیا ہے وانزلنا اليک الذکر لتبن للناس ( النحل: 44 ) یعنی ہم نے اس کتاب قرآن مجید کو اے رسول! تیری طرف اتارا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اسے اپنی خداداد تشریح کے مطابق پیش کردو۔ آپ کی تشریح وتبیین کا دوسرا نام حدیث ہے۔ جس کے بغیر قرآن مجید اپنے مطلب میں مکمل نہیں کہا جاسکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح بھی وحی الیٰ ہی کے ذیل میں جووہ۔ وما ينطق عن الھوي ان ھو الا وحي يوحي ( النجم:3,4 ) کے تحت ہے۔ فرق اتنا ہی ہے کہ قرآن مجید وحی جلی اورحدیث نبوی وحی خفی ہے جسے وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔
3140.
حضرت عروہ بارقی ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ گھوڑوں کی پیشانیوں سے قیامت تک کے لیے خیروبرکت، یعنی اجروغنیمت کو باندھ دیا گیا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کے لیے غنیمت کا مال حلال کردیاہے۔ اس سے پہلے کسی اُمت کے لیے غنیمت کا مال حلال نہ تھا، چنانچہ اس وقت مال غنیمت میدان جنگ میں جمع کردیا جاتا اورآسمان سےآگ آتی اور اسے جلاکر راکھ کردیتی، لیکن اس اُمت کے لیے غنیمت کا مال حلال قراردیا گیا ہے۔ 2۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ میدان جنگ میں شریک ہونے والے گھوڑے باعث برکت ہیں کہ ان کی پیشانیوں سے مال غنیمت باندھ دیا گیا ہے جو مجاہدین کے لیے حلال ہے۔ اس کامطلب ہے کہ شرکت کرنے والوں کو غنیمت ضرور ملے گی، نیز اس کا حقدار ہرشخص نہیں بلکہ وہ مجاہد ہے جو جنگ میں شریک ہو، گویاذکر کردہ آیت میں جو اجمال تھا، اس حدیث نے اس کی وضاحت اور تشریح کردی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3003
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3119
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3119
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3119
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہےکہ قرآن کریم مجمل ہے،اس کے مطابق تو مال غنیمت میں تمام مسلمانوں کا حصہ ہوگا مگرحدیث نے اس کی وضاحت کردی کہ مال غنیمت صرف ان لوگوں کا حق ہے جو براہ راست جنگ میں شریک ہوئے ہوں،پھر اس مال غنیمت میں سے حاکم وقت پانچواں حصہ مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات کے لیے الگ رکھ لے گا اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرے گا۔قرآن کریم نے بھی منصب نبوت ان الفاظ میں بیان کیا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے اس ذکر(قرآن) کو آپ کی طرف اتاراہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے کھول کر بیان کردین جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے۔"(النحل:44/16)اس تشریح وتبیین کا دوسرا نام حدیث ہے جس کے بغیر قرآن کی تشریحات نہیں ہوسکتیں۔اور یہ تشریحات نبوی بھی وحی الٰہی پر مبنی ہیں۔صرف قرآنی وحی اور اس وحی میں فرق یہ ہے کہ قرآن مجید وحی جلی اور حدیث وحی خفی ہے۔اس موضوع پر ہماری تالیف"حجیت حدیث" کا مطالعہ مفید رہے گا جسے دارالسلام نے شائع کیا ہے ۔اس میں منکرین حدیث کے اعتراضات کا شافی جواب دیا گیاہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جس میں سے یہ ( خیبر کی غنیمت ) پہلے ہی دے دی ہے ۔ ‘ ‘ تو یہ غنیمت کا مال ( قرآن کی روسے ) سب لوگوں کا حق ہے مگر آنحضرت ﷺنے بیان فرما دیا کہ کون کون اس کے مستحق ہیں ۔ تشریح : یعنی قرآن مجمل ہے اس کی روسے تو ہر مال غنیمت میں ساری دنیا کے مسلمانوں کا حصہ ہوگا۔ مگر حدیث شریف سے اس کی تشریح ہوگئی کہ ہر لوٹ کا مال ان لوگوں کا حق ہوگا جو لڑے اور لوٹ حاصل کی‘ اس میں سے پانچواں حصہ حاکم وقت مسلمانوں کے عمومی مصالح کے لئے نکال لے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس تقریر سے ان لوگوں کا ردہوا جو صرف قرآن شریف کو عمل کرنے کے لئے کافی سمجھتے ہیں کہ حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے لوگ قرآن مجید کے دوست نہیں کہے جاسکتے بلکہ ان کو قرآن مجید کا دشمن نمبر اول سمجھنا چاہئے جس میں صاف کہا گیا ہے وانزلنا اليک الذکر لتبن للناس ( النحل: 44 ) یعنی ہم نے اس کتاب قرآن مجید کو اے رسول! تیری طرف اتارا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اسے اپنی خداداد تشریح کے مطابق پیش کردو۔ آپ کی تشریح وتبیین کا دوسرا نام حدیث ہے۔ جس کے بغیر قرآن مجید اپنے مطلب میں مکمل نہیں کہا جاسکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح بھی وحی الیٰ ہی کے ذیل میں جووہ۔ وما ينطق عن الھوي ان ھو الا وحي يوحي ( النجم:3,4 ) کے تحت ہے۔ فرق اتنا ہی ہے کہ قرآن مجید وحی جلی اورحدیث نبوی وحی خفی ہے جسے وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عروہ بارقی ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ گھوڑوں کی پیشانیوں سے قیامت تک کے لیے خیروبرکت، یعنی اجروغنیمت کو باندھ دیا گیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کے لیے غنیمت کا مال حلال کردیاہے۔ اس سے پہلے کسی اُمت کے لیے غنیمت کا مال حلال نہ تھا، چنانچہ اس وقت مال غنیمت میدان جنگ میں جمع کردیا جاتا اورآسمان سےآگ آتی اور اسے جلاکر راکھ کردیتی، لیکن اس اُمت کے لیے غنیمت کا مال حلال قراردیا گیا ہے۔ 2۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ میدان جنگ میں شریک ہونے والے گھوڑے باعث برکت ہیں کہ ان کی پیشانیوں سے مال غنیمت باندھ دیا گیا ہے جو مجاہدین کے لیے حلال ہے۔ اس کامطلب ہے کہ شرکت کرنے والوں کو غنیمت ضرور ملے گی، نیز اس کا حقدار ہرشخص نہیں بلکہ وہ مجاہد ہے جو جنگ میں شریک ہو، گویاذکر کردہ آیت میں جو اجمال تھا، اس حدیث نے اس کی وضاحت اور تشریح کردی ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جو تم حاصل کروگے۔ "(قرآن کی رو سے) یہ سب لوگوں کے لیے ہیں لیکن رسول اللہﷺنے بیان فرمایا ہے(کہ کون کون اس کے حقدار ہیں)۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے خالد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے حصین نے بیان کیا‘ ان سے عامر نے اوران سے عروہ بارقی ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا‘ گھوڑوں کی پیشانیوں سے قیامت تک خیروبرکت (آخرت میں) اورغنیمت (دنیا میں) بندھی ہوئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اشارہ یہ ہے کہ جہاد میں شریک ہونے والوں کو إن شاءاللہ مال غنیمت ملے گا۔ اس کا مطلب یہ کہ غنیمت کا مستحق ہر شخص نہیں ہے۔ گویا آیت میں جو اجمال تھا اس کی تفصیل و وضاحت سنت نے کردی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa-al-Bariqi (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Horses are always the source of good, namely, rewards (in the Hereafter) and booty, till the Day of Resurrection."