تشریح:
1۔ کفار سے ان کی حفاظت کے بدلے میں لیے جانے والے ٹیکس کو جزیہ کہتے ہیں۔ جزیہ کن کافروں سے لیا جائے گا؟ اس میں اختلاف ہے۔بعض حضرات کا موقف ہے کہ صرف یہود نصاریٰ سے جزیہ لیا جائے گا باقی کافروں سے نہیں۔ اسی طرح اور بھی اقوال ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام کافروں حتی کہ مجوسیوں سے بھی جزیہ لیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺنے ان سے جزیہ لیا ہے، گویا یہود ونصاریٰ سے آیت کی رو سے اورمجوسیوں سے حدیث کی رو سے جزیہ لیا جائے گا۔ بعض نے کہا ہے کہ مجوسی بھی اصلاً اہل کتاب ہی ہیں، چنانچہ امام شافعی ؒ اور امام عبدالرزاق نے حضرت علی ؓکے حوالے سے بیان کیا ہے کہ مجوسی اہل کتاب تھے، پھر ان کے سردار نے بدتمیزی کی۔ اپنی بہن سے شادی رچالی اور دوسروں کوبھی دعوت دی کہ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ حضرت آدم ؑ بھی اپنی بیٹیوں کانکاح اپنے لڑکوں سےکردیتے تھے۔ لوگوں نے اس کا کہنا مانا، جنھوں نے انکار کیا انھیں قتل کردیا، آخر ان کی کتاب مٹ گئی۔ (المصنف لعبد الرزاق:327/10) 2۔مشرکین وغیرہ سے جزیہ وصول کرنے کے بارے میں جمہور کی رائے یہ ہے کہ ان سے جزیہ وصول نہیں کیا جائے گا بلکہ اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو ان سے لڑائی کی جائے گی۔ امام مالک ؒ کہتے ہیں:مشرکین سے بھی جزیہ وصول کیاجائے گا۔ ان کی دلیل حضرت بریدہ ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:﴿إِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ، فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلاثِ خِصَالٍ﴾ ’’جب تم مشرکین سے ٹکڑاؤ تو پہلے انھیں تین کاموں کی طرف بلاؤ۔‘‘ پھر اس میں جزیے کا بھی ذکر کیا۔ (صحیح مسلم، الجھاد والسیر، حدیث: 4522(1781) گویا آیت قرآنی سے یہود و نصاریٰ سے جزیہ وصول کرنے کا ثبوت ہے اور سنت میں مشرکین سے وصول کرنے کا۔ اور ان میں کوئی تضاد نہیں۔ امام مالک ؒ کا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔