تشریح:
1۔ "ایلہ" حجاز اور شام کی سرحد پر ایک قدیم شہر آباد ہے جسے دورحاضر میں مدینہ عقبہ کہا جاتا ہے۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کا ہدیہ قبول کرنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ان سے مصالحت کرلی، نیز آپ کا اس کو سمندری علاقے کی حکومت لکھ کردینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بادشاہ اور رعایا سب اس مصالحت میں شامل ہیں کیونکہ بادشاہ کی مصالحت، رعایا کی مصالحت قرارپاتی ہے۔ لوگوں کی قوت بادشاہ کے ساتھ ہوتی ہے اور رعایا کے تمام لوگ بادشاہ کے ماتحت ہوتے ہیں، لہذا وہ ان سے علیحدہ نہیں ہوسکتا اور نہ وہ بادشاہ ہی سے علیحدہ رہ سکتے ہیں۔ 3۔لفظ لھم میں جمع کی ضمیر بھی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ تمام رعایا اس میں شامل ہے اگرچہ ایک روایت میں مفرد کی ضمیر ہے۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:1481) تاہم اس سے بھی مدعا واضح ہے کہ بادشاہ کی مصالحت باقی تمام رعایا کی مصالحت ہوگی۔ 4۔ دراصل امام بخاری ؒنے اس عنوان سے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں ایلہ کے بادشاہ اور اس کے رعایا کے لیے امن کی صراحت ہے۔ اسے ابن اسحاق نے اپنی تالیف السیرۃ میں نقل کیاہے۔ اس کے الفاظ ہیں:جب رسول اللہ ﷺ تبوک پہنچے تو آپ کے پاس ایلہ کا بادشاہ آیا تو اس نے آپ کو جزیہ پیش کیا اور آپ سے مصالحت کی تو رسول اللہ ﷺنے ان الفاظ میں پروانہ لکھ کر اس کے حوالے کیا:بسم اللہ الرحمٰن الرحیم’’یہ پروانہ امن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ایلہ کے بادشاہ اور اس کی رعایا کے لیے ہے۔‘‘ (فتح الباري:321/6)