تشریح:
1۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غسل حیض میں سر کھولنا ہوگا، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ سر نہ کھولنے کا تخفیفی حکم صرف غسل جنابت میں ہے، کیونکہ جنابت کثرت سے پیش آتی ہے، جبکہ غسل حیض مہینے میں ایک مرتبہ کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ عورتیں غسل حیض کے وقت کےصفائی ونظافت کا پورا پورا اہتمام کرتی ہیں۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم ابواب میں ذکر کیا ہے۔ 2۔ مدینے سے روانہ ہوتے وقت عام لوگوں کا یہی خیال تھا کہ ہم صرف حج کریں گے، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں یہ ایام (اَشهُر حج) حج کے لیے مخصوص سمجھے جاتے تھے اور ان دنوں میں عمرہ کرنے کو بدترین گناہ خیال کیا جاتا تھا۔ اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے قبل ازیں ماہ ذوالقعدہ میں تین دفعہ عمرہ کر کے اس خیال کو عملی طور پر باطل قراردے دیا تھا، مگر آپ نے ان عمروں میں حج ساتھ نہیں کیا تھا، چونکہ یہ روانگی حج کے لیے تھی، اس لیے آپ نے اس کی وضاحت فرمادی اس کے علاوہ آپ نے مزید فرمایا کہ مجھے ایک مجبوری ہے میرے ساتھ قربانی کا جانور ہے اس لیے صرف عمرے کا احرام نہیں باندھ سکتا، اس لیے میری حالت کو نہ دیکھا جائے، بلکہ ہر انسان اپنی اپنی صوابدید کے مطابق عمل کرے۔ 3۔ حضرت ہشام نے ان تمام باتوں میں ہدی روزہ اور صدقہ وغیرہ کی نفی کی ہے، کیونکہ ایسی چیزیں کسی جنابت کے ارتکاب پر ہوتی ہیں۔ عائشہ ؓ کے ذمے کوئی دم جنابت لازم نہیں آیا، کیونکہ حیض کا آجانا عذر سمادی تھا۔ اس میں ان کے اختیارکوکوئی دخل نہ تھا جبکہ ہدی وغیرہ کسی فعل اختیاری کی وجہ سے ہوتی ہے،4۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگر احکام کتاب الحج میں بیان ہوں گے بإذن اللہ ۔