تشریح:
1۔ اہل یمن سے مراد وفد حمیرہےہے۔ اس سے مراد حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور ان کے ساتھی نہیں ہیں کیونکہ امام بخاری ؒ نے آئندہ ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے۔ (باب قدوم الأشعريين وأهل اليمن) ’’اشعر یین اور اہل یمن کے وفد کی آمد۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، باب:75) اس کا مطلب یہ ہے کہ اشعریین اور اہل یمن دونوں الگ ہیں اس کے علاوہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 7 ہجری میں فتح خیبر کے وقت آئے تھے جبکہ اہل یمن 9 ہجری میں بطوروفد آئے تھے تاکہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور رسول اللہ ﷺ کے پاس بنو تمیم کے ساتھ اسی وفد کا اجتماع ہوا تھا اشریین بنو تمیم کے ساتھ جمع نہیں ہوئے۔ (فتح الباري:122/8) 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےبنو تمیم کو قبول اسلام کی وجہ سے اخروی کامیابی کی بشارت دی۔ انھوں نے اسے دنیا کے مال و متاع کی خوشخبری خیال کیا۔ رسول اللہ ﷺان کی حرص اور دنیا طلبی پر پریشان ہوئے یا اس لیے رنجیدہ ہوئے کہ وہ لوگ نئےنئے مسلمان تھے۔ ان کی تالیف قلبی کے لیے آپ کے پاس مال نہ تھا اس لیے آپ افسردہ ہوئے لیکن پہلی توجیہ زیادہ وزنی معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔