قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ الرَّبِيعُ بْنُ خُثَيْمٍ، وَالحَسَنُ: «كُلٌّ عَلَيْهِ هَيِّنٌ» هَيْنٌ وَهَيِّنٌ مِثْلُ لَيْنٍ وَلَيِّنٍ، وَمَيْتٍ وَمَيِّتٍ، وَضَيْقٍ وَضَيِّقٍ {أَفَعَيِينَا} [ق: 15]: «أَفَأَعْيَا عَلَيْنَا حِينَ أَنْشَأَكُمْ وَأَنْشَأَ خَلْقَكُمْ»، {لُغُوبٌ} [فاطر: 35] «النَّصَبُ»، {أَطْوَارًا} [نوح: 14] «طَوْرًا كَذَا وَطَوْرًا كَذَا، عَدَا طَوْرَهُ أَيْ قَدْرَهُ»

3191. حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ شَدَّادٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَقَلْتُ نَاقَتِي بِالْبَابِ، فَأَتَاهُ نَاسٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ فَقَالَ: «اقْبَلُوا البُشْرَى يَا بَنِي تَمِيمٍ»، قَالُوا: قَدْ بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا، مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ اليَمَنِ، فَقَالَ: «اقْبَلُوا البُشْرَى يَا أَهْلَ اليَمَنِ، إِذْ لَمْ يَقْبَلْهَا بَنُو تَمِيمٍ»، قَالُوا: قَدْ قَبِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالُوا: جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ هَذَا الأَمْرِ؟ قَالَ: «كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُهُ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ، وَكَتَبَ فِي الذِّكْرِ كُلَّ شَيْءٍ، وَخَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ» فَنَادَى مُنَادٍ: ذَهَبَتْ نَاقَتُكَ يَا ابْنَ الحُصَيْنِ، فَانْطَلَقْتُ، فَإِذَا هِيَ يَقْطَعُ دُونَهَا السَّرَابُ، فَوَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ تَرَكْتُهَا،

مترجم:

ترجمۃ الباب:

۔ اور ربیع بن خشیم اور امام حسن بصری نے کہا کہ یوں تو دونوں یعنی ( پہلی مرتبہ پیدا کرنا پھر دوبارہ زندہ کردینا ) اس کے لیے بالکل آسان ہے ( لیکن ایک کو یعنی پیدائش کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کو زیادہ آسان ظاہر کے اعتبار سے کہا ) ( مشدد اور مخفف ) دونوں طرح پڑھنا جائز ہے اور سورہ قٓ میں جو لفظ اَفَعَیِینَا آیا ہے ، اس کے معنی ہیں کہ کیا ہمیں پہلی بار پیدا کرنے نے عاجز کردیا تھا ۔ جب اس خدا نے تم کو پیدا کردیا تھا اور تمہارے مادے کو پیدا کیا اور اسی سورت میں ( اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ) لُغُوب کے معنی تھکن کے ہیں اور سورہ نوح میں جو فرمایا اَطوَاراً اس کے معنی یہ ہیں کہ مختلف صورتوں میں تمہیں پیدا کیا ۔ کبھی نطفہ ایسے خون کی پھٹکی پھر گوشت پھر ہڈی پوست ۔ عرب لوگ بولا کرتے ہیں عَدَاطَورَہ یعنی فلاں اپنے مرتبہ سے بڑھ گیا ۔ یہاں اطوار کے معنی رتبے کے ہیں ۔قرآن شریف میں سورۃ مریم میں لفظ وہوہین آیا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسب سے اس لفظ کی تشریح کردی کہ ربیع اور حسن کے قول میں یہ لفظ آیا ہے اور سورۃ قٓ اور سورۃ نوح کے لفظوں کی تشریح اس لیے کہ ان آیتوں میں آسمان اور زمین اور انسان کی پیدائش کا بیان ہے اور یہ باب بھی اسی بیان میں ہے۔

3191.

حضرت عمران بن حصین ؓہی سے رویت ہے، انھوں نے کہا: میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی اونٹنی کو میں نے دروازے ہی پر باندھ دیا تھا۔ آپ کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے تو آپ نے ان سے فرمایا: ’’اے بن تمیم! بشارت قبول کرو۔‘‘ انھوں نے دو مرتبہ کہا: آپ نے ہمیں خوشخبری دی ہے، اب ہمیں مال بھی دیں۔ اس دوران میں یمن کے چند لوگ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے ان سے بھی یہی فرمایا: ’’اے یمن والو! خوشخبری قبول کرلو، بنو تمیم نے اسے مسترد کردیا ہے۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہم نے آپ کی بشارت قبول کی ہے۔ پھر وہ کہنے لگے: ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے اس عالم کی پیدائش کے حالات پوچھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اول اللہ کی ذات تھی اس کے سوا کوئی چیز نہیں تھی اور اس کاعرش پانی پر تھا اور لوح محفوظ میں اس نے ہر چیزلکھ دی تھی اور اسی نے ہی زمین و آسمان کو پیدا فرمایا۔‘‘ ابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ایک شخص نے آواز دی: اے ابن حصین! تمہاری اونٹنی بھاگ گئی ہے۔ میں وہاں سے چلا گیا تو دیکھا کہ وہ اونٹنی سراب سے آگے جا چکی تھی۔ اللہ کی قسم! میری خواہش تھی کہ کاش! میں نے اس اونٹنی کو چھوڑ دیا ہوتا (اور وہاں سے نہ اٹھتا تو بہتر تھا)۔