قسم الحديث (القائل): قدسی ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ الرَّبِيعُ بْنُ خُثَيْمٍ، وَالحَسَنُ: «كُلٌّ عَلَيْهِ هَيِّنٌ» هَيْنٌ وَهَيِّنٌ مِثْلُ لَيْنٍ وَلَيِّنٍ، وَمَيْتٍ وَمَيِّتٍ، وَضَيْقٍ وَضَيِّقٍ {أَفَعَيِينَا} [ق: 15]: «أَفَأَعْيَا عَلَيْنَا حِينَ أَنْشَأَكُمْ وَأَنْشَأَ خَلْقَكُمْ»، {لُغُوبٌ} [فاطر: 35] «النَّصَبُ»، {أَطْوَارًا} [نوح: 14] «طَوْرًا كَذَا وَطَوْرًا كَذَا، عَدَا طَوْرَهُ أَيْ قَدْرَهُ»

3193. حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُرَاهُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: يَشْتِمُنِي ابْنُ آدَمَ، وَمَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَشْتِمَنِي، وَيُكَذِّبُنِي وَمَا يَنْبَغِي لَهُ، أَمَّا شَتْمُهُ فَقَوْلُهُ: إِنَّ لِي وَلَدًا، وَأَمَّا تَكْذِيبُهُ فَقَوْلُهُ: لَيْسَ يُعِيدُنِي كَمَا بَدَأَنِي

مترجم:

ترجمۃ الباب:

۔ اور ربیع بن خشیم اور امام حسن بصری نے کہا کہ یوں تو دونوں یعنی ( پہلی مرتبہ پیدا کرنا پھر دوبارہ زندہ کردینا ) اس کے لیے بالکل آسان ہے ( لیکن ایک کو یعنی پیدائش کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کو زیادہ آسان ظاہر کے اعتبار سے کہا ) ( مشدد اور مخفف ) دونوں طرح پڑھنا جائز ہے اور سورہ قٓ میں جو لفظ اَفَعَیِینَا آیا ہے ، اس کے معنی ہیں کہ کیا ہمیں پہلی بار پیدا کرنے نے عاجز کردیا تھا ۔ جب اس خدا نے تم کو پیدا کردیا تھا اور تمہارے مادے کو پیدا کیا اور اسی سورت میں ( اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ) لُغُوب کے معنی تھکن کے ہیں اور سورہ نوح میں جو فرمایا اَطوَاراً اس کے معنی یہ ہیں کہ مختلف صورتوں میں تمہیں پیدا کیا ۔ کبھی نطفہ ایسے خون کی پھٹکی پھر گوشت پھر ہڈی پوست ۔ عرب لوگ بولا کرتے ہیں عَدَاطَورَہ یعنی فلاں اپنے مرتبہ سے بڑھ گیا ۔ یہاں اطوار کے معنی رتبے کے ہیں ۔قرآن شریف میں سورۃ مریم میں لفظ وہوہین آیا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسب سے اس لفظ کی تشریح کردی کہ ربیع اور حسن کے قول میں یہ لفظ آیا ہے اور سورۃ قٓ اور سورۃ نوح کے لفظوں کی تشریح اس لیے کہ ان آیتوں میں آسمان اور زمین اور انسان کی پیدائش کا بیان ہے اور یہ باب بھی اسی بیان میں ہے۔

3193.

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ابن آدم مجھے گالی دیتاہے، حالانکہ اسے زیبا نہیں کہ مجھے گالی دے۔ اور میری تکذیب کرتاہے، حالانکہ اسے لائق نہیں (کہ میری تکذیب کرے)۔ اسکا مجھے گالی دینا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ میری اولاد ہے۔ اور اس کامیری تکذیب کرنا اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ مجھے زندہ نہیں کرے گا جیسے اس نے مجھے پہلے پیدا کیا تھا۔‘‘