تشریح:
1۔ ابتدائی معلق روایت کو امام مالک ؒ نے اپنی موطا (حدیث (90) میں موصولاً بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امکان حیض کے وقت تیزی کے ساتھ خون کی آمد اقبال حیض کی علامت ہے۔ اس پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ ادبار (ختم ہونے) کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ داخل فرج میں رکھی ہوئی روئی اگر خشک نکل آئے تو یہ ادبار کی علامت ہے، لیکن بعض اوقات دوران حیض میں بھی وقفات کے وقت روئی خشک نکل آتی ہے، لہٰذا اسے ادبار کی علامت قرارنہیں دیا جا سکتا۔ جبکہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگرروئی پر چونے جیسی سفید رطوبت لگی ہوتو یہ ادبار کی نشانی ہے۔ امام بخاری ؒ کا رجحان اسی طرف معلوم ہوتا ہے اور اس کی تائید حضرت عائشہ ؓ کے ارشاد سے بھی ہوتی ہے، سفید رطوبت کے متعلق امام مالک فرماتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق اپنی عورتوں سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے ہاں یہ امر معروف ہے، وہ اس سے طہر کی پہچان کرتی ہیں۔ (فتح الباري:544/1) 2۔ حضرت زید بن ثابت ؓ کی حسنہ، عمرہ اور اُم کلثوم نامی چند ایک لڑکیاں ہیں۔ احادیث کی روایت میں حضرت اُم کلثوم ؓ کا نام ملتا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اس روایت میں حضرت زید بن ثابت ؓ کی گمنام بیٹی یہی اُم کلثوم ہو۔ انھوں نے عورتوں کے کردار پر اس لیے اعتراض کیا کہ رات کے وقت خالص سفیدی کی تمیز نہیں ہو سکتی۔ عین ممکن ہے کہ وہ جسے طہر خیال کریں وہ طہر نہ ہو اور نماز ایام حیض میں طہر سے پہلے ادا کر لی جائے۔ (فتح الباري:544/1) 3۔ عورتیں رات کے وقت چراغ طلب کرنے کا اہتمام اس لیے کرتی تھیں، تاکہ انھیں اختتام حیض کا پتہ چل جائے، مبادا عشاء کی نماز قضا ہو جائے جب ان کا یہ اہتمام ادائیگی نماز کے پیش نظر تھا تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی کو یہ بات کیوں ناگوار معلوم ہوئی؟ بعض حضرات نے اس کا جواب دیا ہے کہ ان کے رات کے وقت چراغ جلانے کا اہتمام بلا وجہ تھا کیونکہ خون کی آمد تو ہاتھ کے چھونے سے معلوم ہو سکتی تھی لیکن یہ جواب درست نہیں کیونکہ ہاتھ کے چھونے سے حیض کے خون اور رطوبت فرج کے درمیان تمیز نہیں ہو سکتی۔ دراصل شریعت نے حیض کے متعلق زیادہ سختی نہیں کی ہے کہ اسے رات کے وقت چراغ جلا کر دیکھنے کا اہتمام کیا جائے، بلکہ سوتے وقت دیکھ لیا جائے، اگر منقطع ہو گیا تو غسل کر کے نماز عشاء ادا کر لی جائے اور اگر سوتے وقت منقطع ہوا تو روئی رکھ کر سو جانا چاہیے، صبح اٹھ کر اگر روئی کو خون لگا دیکھے تو حیض جاری ہے، اس کے ذمے کچھ نہیں ۔ اگر خون کا نشان وغیرہ نہیں ہے تو پھر غسل کر کے نماز فجر ادا کر لے۔ 4۔ احناف نے عورت کی عادت کو حیض کے اقبال و ادبار کا مدار ٹھہرایا ہے، جبکہ شوافع کے ہاں الوان (رنگوں ) کا اعتبار ہے۔ احناف کا کہنا ہے کہ الوان پر حیض کا مدار نہیں رکھا جا سکتا، کیونکہ صحت مند عورت جس کا مزاج معتدل ہواور غذا اور آب وہوا بھی معتدل ہو تو تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ خون کی رنگت سرخ ہوتی ہے، اس کجے برعکس اگر مزاج کی خرابی ہے، آب و ہوا معتدل نہیں اور گرم غذائیں استعمال کرتی ہے تو اس سے خون میں احترافی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے خون سیاہ ہو جاتا ہے اس لیے رنگوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے، ہاں اگر کسی عورت کو عادت کے طور پر معلوم ہو جائے کہ اس کے خون کی رنگت سیاہ یا سرخ ہوتی ہے تو الگ بات ہے بہر حال حدیث سے عادات اور الوان دونوں کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے متعلق استحاضے کے باب میں بحث ہو چکی ہے۔ واللہ أعلم۔