قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ: آمِينَ وَالمَلاَئِكَةُ فِي السَّمَاءِ، آمِينَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

3226. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، أَنَّ بُكَيْرَ بْنَ الأَشَجِّ حَدَّثَهُ، أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الجُهَنِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ، وَمَعَ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عُبَيْدُ اللَّهِ الخَوْلاَنِيُّ الَّذِي كَانَ فِي حِجْرِ مَيْمُونَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَهُمَا زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ، أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَدْخُلُ المَلاَئِكَةُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ» قَالَ بُسْرٌ: فَمَرِضَ زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ فَعُدْنَاهُ، فَإِذَا نَحْنُ فِي بَيْتِهِ بِسِتْرٍ فِيهِ تَصَاوِيرُ، فَقُلْتُ لِعُبَيْدِ اللَّهِ الخَوْلاَنِيِّ: أَلَمْ يُحَدِّثْنَا فِي التَّصَاوِيرِ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ قَالَ: إِلَّا رَقْمٌ فِي ثَوْبٍ أَلاَ سَمِعْتَهُ قُلْتُ لاَ، قَالَ: بَلَى قَدْ ذَكَرَهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اس طرح دونوں کی زبان سے ایک ساتھ ( با آواز بلند ) آمین نکلتی ہے تو بندے کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔تشریح:حضرت امام بخاری نے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ کے ختم پر آمین بالجہر یعنی بلند آواز سے آمین بولنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے‘امت میں سواد اعظم کا یہی معمول ہے یہاں تک کہ مسالک اربعہ میں سےتینوں مسالک شافعی مالکی حنبلی سب آمین بالجھرکے قائل اور عامل ہیں مگر بہت سے حنفی حضرات نہ صرف اس سنت سے نفرت کرتے ہیں اور اس سنت پر عمل کرنے والوں کو بنگاء حقارت دیکھتے ہیں بلکہ بعض جگہ اپنی مساجدمیں ایسے عاملین بالسنہ کونماز ادا کرنے سے روکتے ہیں جو بہت ہی زیادہ افسوس ناک حرکت ہے بہت سے مصنف مزاج حنفی اکابر علماء نے اس کا سنت ہونا تسلیم کیا ہے اور اس کا عاملین کو ثواب سنت کا حقدار بتایا ہے کاش! جملہ برادران ایسے امور مسنونہ پر جھگڑنا چھوڑ کر اتفاق و اتخاد ملت پیدا کریں اور امت کو انتشار سے نکالیں آمین بالجھر کا مسنون ہونا اور دلائل مخالفین کا جواب پیچھے تفصیل سے لکھا جا چکا ہے یہاں حضرت امام بخاری اس حدیث کو اس لئے لائے کہ فرشتوں کا وجود اور ان کا کلام کرنا ثابت کیا جائے۔

3226.

بسر بن سعید اور عبیداللہ خولانی، جو نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ ؓ کے زیر تربیت تھے، ان دونوں سے حضرت زید بن خالد ؓ نے بیان کیا، انھیں حضرت ابو طلحہ ؓ نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جس میں کسی جاندار کی تصویر ہو۔‘‘ بسر بن سعید نے کہا کہ ایک دفعہ حضرت زید بن خالد ؓ بیمار ہوگئے تو ہم ان کی تیمارداری کے لیے گئے۔ ہم نے ان کے گھر میں ایک پردہ دیکھا جس میں تصویریں تھیں۔ میں نے عبیداللہ خولانی سے کہا: کیا انھوں نے ہمیں تصاویر کے متعلق خبر نہیں دی تھی؟ عبیداللہ نے جواب دیا کہ انھوں نے کہا تھا کپڑے کے نقوش اس سے استثنیٰ ہیں۔ کیا تم نے یہ الفاظ نہیں سنے تھے؟میں نے کہا: نہیں۔ انھوں نے بتایا : کیوں نہیں، انھوں نے یہ بھی بیان کیاتھا۔