تشریح:
شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ توحدیث حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کے معارض ہے، جس میں انھوں نےفرمایا ہے:’’ہمارے پاس صرف ایک ہی لباس ہوتا تھا جس میں حیض کے دن بھی گزارتےتھے۔‘‘ اس کاجواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے ابتدائے اسلام کا حال بیان فرمایا ہے، جب مسلمانوں پرتنگی اور افلاس کے دن تھے، لیکن جب اس کے بعد فتوحات کا دور آیا اور اموال غنیمت کی بہتات ہوئی تو رہن سہن کے معاملات میں بھی وسعت آگئی اور عورتوں نے لباس میں تنوع اختیارکرلیا، زمانہ طہر کا لباس الگ اورزمانہ حیض میں استعمال کے لیے لباس دوسرا۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے حدیث مذکور میں دوسرے خوش عیشی کے وقت کی خبر دی ہے۔ (شرح ابن بطال:449/1) مقصد یہ ہےکہ اگرکوئی عورت ایام حیض کے لیے کوئی مخصوص لباس رکھتی ہے تو یہ عمل قابل اعتراض نہیں اور نہ اسے اسراف میں شامل کیا جاسکتا ہے جس کی شریعت میں ممانعت ہے۔ اسراف ممنوع یہ ہے کہ بے ضرورت یا محض فخرومباہات کے لیے لباس میں تنوع اختیار کیا جائے۔ اگرگنجائش ہو تو ان دنوں الگ لباس کا اہتمام کرنا بہتر ہے۔ بعض حضرات نے ثیابِ حیض سے مراد روئی کی گدی اور لنگوٹ وغیرہ لیا ہے، یعنی قمیص، شلوار اور دوپٹہ تو عورت کا لباس ہے، اگرایام حیض میں گدی اور لنگوٹ وغیرہ کا اضافہ کرلیا جائے تو قابل اعتراض نہیں، لیکن ہمارے نزدیک یہ محل نظر ہے، کیونکہ ان پٹیوں، گدیوں اور لنگوٹ وغیرہ کو لباس کا درجہ دینا صحیح نہیں۔ اسے احتمال بعید کا نام دینا ہی مناسب ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں:’’اس حدیث سے استدلال اس بات پر موقوف ہے کہ ثیاب حیض سے مراد ایسے کپڑے لیے جائیں جو روئی کی گدیوں کے علاوہ پہنے جاتے ہیں۔ روئی کی گدیاں اورپٹیوں کا استعمال تو ایام حیض میں معروف ہے اوراحتمال ہے کہ یہی لباس مراد ہو۔‘‘ ہمارے نزدیک احتمال ہی نہیں، بلکہ حقیقت میں ایساہی ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے گدیوں اورلنگوٹ کے علاوہ کوئی دوسرا لباس پہنا تھا جو ایام حیض کے لیے مخصوص تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس لباس کو دیکھ کر فرمایا:’’کیا تجھے حیض آگیاہے؟‘‘ یہ گدیاں اور لنگوٹ تو نظر نہیں آتے کہ انھیں دیکھ کر کوئی شخص حیض کا اندازہ لگالے۔ واللہ أعلم۔