قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ: آمِينَ وَالمَلاَئِكَةُ فِي السَّمَاءِ، آمِينَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

3238. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ثُمَّ فَتَرَ عَنِّي الوَحْيُ فَتْرَةً، فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي، سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ بَصَرِي قِبَلَ السَّمَاءِ، فَإِذَا المَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ، قَاعِدٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَجُئِثْتُ مِنْهُ، حَتَّى هَوَيْتُ إِلَى الأَرْضِ، فَجِئْتُ أَهْلِي فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ} [المدثر: 2] إِلَى قَوْلِهِ {وَالرُّجْزَ} [المدثر: 5] فَاهْجُرْ ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَالرِّجْزُ: الأَوْثَانُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اس طرح دونوں کی زبان سے ایک ساتھ ( با آواز بلند ) آمین نکلتی ہے تو بندے کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔تشریح:حضرت امام بخاری نے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ کے ختم پر آمین بالجہر یعنی بلند آواز سے آمین بولنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے‘امت میں سواد اعظم کا یہی معمول ہے یہاں تک کہ مسالک اربعہ میں سےتینوں مسالک شافعی مالکی حنبلی سب آمین بالجھرکے قائل اور عامل ہیں مگر بہت سے حنفی حضرات نہ صرف اس سنت سے نفرت کرتے ہیں اور اس سنت پر عمل کرنے والوں کو بنگاء حقارت دیکھتے ہیں بلکہ بعض جگہ اپنی مساجدمیں ایسے عاملین بالسنہ کونماز ادا کرنے سے روکتے ہیں جو بہت ہی زیادہ افسوس ناک حرکت ہے بہت سے مصنف مزاج حنفی اکابر علماء نے اس کا سنت ہونا تسلیم کیا ہے اور اس کا عاملین کو ثواب سنت کا حقدار بتایا ہے کاش! جملہ برادران ایسے امور مسنونہ پر جھگڑنا چھوڑ کر اتفاق و اتخاد ملت پیدا کریں اور امت کو انتشار سے نکالیں آمین بالجھر کا مسنون ہونا اور دلائل مخالفین کا جواب پیچھے تفصیل سے لکھا جا چکا ہے یہاں حضرت امام بخاری اس حدیث کو اس لئے لائے کہ فرشتوں کا وجود اور ان کا کلام کرنا ثابت کیا جائے۔

3238.

حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ سے سنا،  آپ فر رہے تھے۔ "مجھ پر وحی کا نزول کچھ عرصہ بند رہا۔ اس دوران میں کہیں جا رہا تھا کہ میں نے آسمان میں سے ایک آواز سنی۔ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اس فرشتے کو دیکھا جو میرے پاس غار حراء میں آیا تھا کہ وہ زمین و آسمان کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہے۔ میں اسے دیکھ کر اس قدر گھبرایا کہ زمین پر گر پڑا۔ پھر میں اپنے گھروالوں کے پاس آیا اور کہا: مجھے کمبل اوڑھادو۔ مجھ کمبل اوڑھا دو۔ تو اللہ تعالیٰ نے آیات اتاریں "اے کمبل اوڑھنے والے!کھڑے ہو جاؤ۔ پھرانھیں متنبہ کرو۔ ۔ ۔ اور بتوں سے دور رہو۔ "تک، (راوی حدیث) حضرت ابوسلمہ نے کہا کہ آیت میں الرجز سے بت مراد ہیں۔