تشریح:
1۔ امام بخاری ؓ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگرعورت دعویٰ کرے کہ اسے ایک ماہ میں تین حیض آگئے ہیں تو کیا اس کی بات کو تسلیم کیا جائے گا یا نہیں؟ صورت مسئلہ یوں ہوسکتی ہے کہ کسی عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی، وہ ایک ماہ کے بعد رجوع کرنا چاہتا ہے، لیکن عورت کا یہ دعویٰ ہے کہ اسے ایک ماہ میں تین حیض آچکے ہیں، یعنی خاوند کا حق رجوع ختم ہوچکا ہے، کیونکہ اس کی عدت تین حیض آنے تک تھی، اب وہ ختم ہوچکی ہے۔ امام بخاری ؒ کا موقف صراحت کے ساتھ نہیں، البتہ اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ حیض اور حمل کے معاملات میں عورت کی بات کا اعتبار کیا جائے گا، لیکن اس سے قسم لی جائے گی۔ امام بخاری نے ایک اورشرط بھی بیان کی ہے کہ اگرتین حیض کا دعویٰ ایسی مدت میں ہے کہ اس مدت میں تین حیض آسکتے ہیں تو صحیح ہے، اگرامکانی مدت سے کم میں دعویٰ کرتی ہے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔ امام بخاری نے دلیل کے طور پر آیت کریمہ کو پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی اندرونی حالت کو نہ چھپائیں۔ اگرحیض یا حمل ہے تو اسے ظاہر کردیں، کیونکہ حیض یا حمل تک خاوند کو رجوع کرنے کا حق ہے۔ استدلال بایں طور ہے کہ عورت کو رحمی حالت کے اظہار کی تاکید کی جارہی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں عورت کا بیان ہی معتبر ہوگا۔ یہ بھی واضح رہے کہ بیان کے معتبر ہونے کے معنی بیان حلفی کے معتبر ہونے کے ہوا کرتے ہیں، لہذا ایک ماہ میں تین حیض آنے کے متعلق بھی اس کا بیان قسم لے کر معتبر مانا جائے گا، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں: اگرعورت یہ دعویٰ کرے کہ ایک ماہ میں اسے تین حیض آچکے ہیں تو اس کی تصدیق کی جائے گی، کیونکہ ایسا ممکن ہے۔ قرآنی آیت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی بات معتبر ہوگی۔ اس باب میں بیان کردہ جملہ تعلیقات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حیض کی مدت محدود مقرر نہیں ہے، اس لیے عورت ہی کی بات پر مدار ہے، بشرطیکہ حد امکان سے باہر نہ ہو۔ 2۔ امام بخاری ؒ نےاگرچہ واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ ایک ماہ میں تین حیض آجانے کا دعویٰ کرنے والی عورت کی بات کو تسلیم کیا جائے گا اور وہ عدت سے خارج ہوجائےگی، لیکن ان کے پیش کردہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جواز وتصدیق کے قائل ہیں۔ آپ نے سب سے پہلے قاضی شریح تابعی کا ایک فیصلہ اپنی تائید میں پیش کیا ہے۔ اس کی تفصیل بایں طور ہے کہ ایک دن قاضی شریح کے سامنے ایک مقدمہ آیا جس میں عورت کو طلاق پر ایک ماہ گزرچکا تھا، خاوند رجوع کرنا چاہتا تھا، لیکن عورت کا دعویٰ تھا کہ مجھے ایک ہی ماہ میں تین حیض آچکے ہیں، لہذا میری عدت ختم ہوچکی ہے۔ حضرت شریح ؒ نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے گھر کے رازداں دیندار اقرباء میں سے ایسے گواہ لاؤ جو گواہی دیں کہ ہم نے اسے ایام حیض ترک صوم وصلاۃ کے بعد صوم وصلاۃ ادا کرتے دیکھا ہے توعدالت تیرے دعویٰ کی تصدیق کرتے ہوئے فیصلہ تیرے حق میں کردے گی۔ حضرت شریح نے یہ فیصلہ حضرت علی ؓ کی موجودگی میں کیا، انھوں نے اس فیصلے کی تحسین فرمائی۔ (سنن الدارمي:حدیث:855) ویسے عورت کو ایک ماہ میں تین بار حیض نہیں آتا۔ تندرست عورت کو ہرماہ صرف چند ایام کے لیے ایک ہی بار حیض آتا ہے، لیکن اگرکبھی شازونادر ایسا ہوجائے اور عورت خود اقرارکرے کہ اسے ایک مہینے میں تین بار حیض آیا ہے تواس کا بیان قابل تسلیم ہے جس طرح استحاضے کے متعلق عورت ہی کے بیان پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔ 3۔ حضرت عطاء بن ابی رباح ؒ نے فرمایا کہ اگر مطلقہ عورت ایک ماہ میں تین حیض گزرجانے کا دعویٰ کرتی ہے تو دیکھا جائے کہ طلاق سے قبل اس کی عادت کیا تھی۔ (المصنف لعبد الرزاق:311/6) اگر اسے ایک ماہ میں تین حیض آنے کی عادت تھی تو اس کا دعویٰ تسلیم کیا جائے گا۔ بصورت دیگر یہ سمجھا جائے گا کہ یہ اپنے شوہر سے پیچھا چھڑانے کا دعویٰ کررہی ہے اور اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی کیونکہ یہ اس بہانے خاوند کا حق رجوع باطل کررہی ہے۔ 4۔ امام بخاری ؒ کےنزدیک حیض وحمل کے متعلق عورتوں کا بیان قابل اعتبار ہے، اس لیے انھوں نے ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ اس میں ہے کہ جن دنوں میں تجھے حیض آتا ہے اتنے دن نماز چھوڑدے، پھر غسل کرکے نماز شروع کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس معاملے میں عورت کی بات اوررائے کااعتبار ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے معاملہ حضرت فاطمہ بنت ابی جیش ؓ کے سپردکردیا کہ ان دنوں کے اندازے پر تم نماز چھوڑ دو جن میں تمھیں حیض آتا ہے۔ نیزرسول اللہ ﷺ نے ان کے بیان پر ہی مسائل متعلقہ تعلیم فرمائے۔ واللہ أعلم۔ نوٹ:۔عطا ؒ کا دوسرا اثر کہ مدت حیض ایک دن سے پندرہ دن تک ہے کہ امام دارمی نے سنن الدارمی (حدیث:833) میں اورابن سیرین ؒ کے اثر کو(حدیث 795) میں موصولاً بیان کیا ہے۔